سورة الكهف - آیت 7

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بے شک جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے زمین کے لیے زینت بنایا ہے، تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون عمل میں بہتر ہے۔“ (٧) ”

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین پر پائی جانے والی ہر چیز کو، لذت بھرے ماکولات و مشروبات، خوبصورت ملبوسات، اشجارو انہار، کھیتوں، باغات، دلفریب مناظر، خوش منظر باغیچوں، سحر انگیز آوازوں، خوبصورت چہروں، سونے چاندی، اونٹوں اور گھروں، ان سب کو دنیا کی زینت، فتنہ اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ ﴿لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴾ ” تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ کون ان میں اچھے عمل کرتا ہے۔“ یعنی کون زیادہ خالص اور زیادہ صحیح اعمال پیش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام چیزوں کو مضحمل ہونے والی، فانی اور زائل ہوجانے والی بنایا ہے۔ عنقریب یہ زمین بے آب و گیاہ اور بنجر ہوجائے گی، اس کی تمام لذتیں نا پید ہوجائی گی۔ یہ ہے اس دنیا کی حقیقت، اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو ہمارے سامنے اس طرح بیان کردیا ہے گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا سے دھوکہ کھانے سے بچنے کے لیے کہا ہے اور ہمیں اس گھر کے حصول کی ترغیب دی ہے جس کی نعمتیں دائمی اور جہاں کے رہنے والے بہت خوش بخت ہیں۔ یہ سب کچھ ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جن لوگوں کا باطن گناہوں کے میل کچیل سے آلودہ ہے اور وہ دنیا کی ظاہری شکل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ دنیا کی زیب و زینت سے فریب کھا جاتے ہیں تب وہ دنیا میں بہائم کی طرح رہتے ہیں، مویشیوں کی طرح اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنے رب کے حق میں غور کرتے ہیں نہ اس کی معرفت کے حصول کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ان کے ارادے صرف شہوات کے حصول پر مرتکز ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی حالت میں حاصل ہوں۔ جب ان لوگوں کی موت کا وقت آتا ہے تو انہیں اپنی ذات کے ویران ہونے اور لذتوں کے چھوٹ جانے پر بہت قلق ہوتا ہے۔ اس قلق کا سبب یہ نہیں کہ وہ کوتاہی اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور جو اس دنیا کے باطن پر نظر ڈالتا ہے اور اسے دنیا اور خود اپنے مقاصد کا علم ہوتا ہے وہ اس دنیا سے صرف اتنا سا استفادہ کرتا ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں مدد لے سکے جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے اور اپنی عمر میں فرصت کو غنیمت جانتا ہے وہ دنیا کو راہ گزر سمجھتا ہے، آرام کی منزل نہیں۔ وہ اسے انتہائی دشوار اور تکلیف دہ سفر سمجھتا ہے، عیش و آرام کا گھر نہیں۔ پس وہ اپنے رب کی معرفت کے حصول اس کے احکام کے نفاذ اور اپنے اعمال کو مقام احسان پر پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کرتا ہے۔ یہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین منازل میں قیام کرے گا وہ ہر قسم کے اکرام و تکریم، نعمتوں اور مسرتوں کا مستحق ہوگا۔ جب فریب خوردہ لوگ دنیا کے ظاہر کو دیکھتے تھے تو اس شخص کی نظر دنیا کے باطن پر تھی، جب لوگ حصول دنیا کے لیے کام کرتے تھے تو یہ اپنی آخرت کے لیے کام کرتا تھا دونوں فریقوں میں بہت بڑا فرق اور دونوں گروہوں کے درمیان بہت بڑا تفاوت ہے۔