سورة البقرة - آیت 186

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو انہیں بتا دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر پکار نے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔ اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے انداز میں مناجات کریں یا وہ دور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟“ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ ﴾” اور جب تجھ سے میرے بندے میری بابت پوچھیں تو (ان کو بتلا دیں کہ) میں قریب ہوں“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ ہر بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے۔ وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے۔ اسی لیے فرمایا ﴿ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ﴾” جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔“ دعا کی دو اقسام ہیں۔ (1) دعائے عبادت۔ (2) دعائے سوال۔ اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں۔ (1) اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔ (2) دعا کی قبولیت، مدد اور توفیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والے کے قریب ہونا۔ جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو مشروع ہو اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خاص طور پر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی اور فعلی اوامرونواہی کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا، جو قبولیت دعا کا موجب ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِی﴾ْ” پس ان کو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پا لیں“ یعنی ان کو وہ رشد عطا ہوگی جو ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نام ہے اور ان سے وہ گمراہی زائل ہوجائے گی جو ایمان اور اعمال صالحہ کے منافی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا حصول علم کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا ﴾(الانفال: 8؍ 29) ” اے ایمان دارو ! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہارے لیے حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔ “