سورة یوسف - آیت 108

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرما دیں یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتاہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔“ (١٠٨)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ﴾ ’’)لوگوں سے( کہہ دیجیے !“ ﴿ هَـٰذِهِ سَبِيلِي﴾ ” یہ میرا راستہ ہے“ جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں، یہ راستہ اللہ تعالیٰ اور اس کے کرامت کے گھر تک پہنچاتا ہے جو علم حق، اس پر عمل کرنے، اس کو ترجیح دینے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص دین کو متضمن ہے۔ ﴿أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ﴾ ” میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں“ یعنی میں تمام مخلوق اور تمام بندوں کو اپنے رب کے پاس پہنچنے پر آمادہ کرتا ہوں اور انہیں اس کی ترغیب دیتا ہوں اور انہیں ان تمام امور سے ڈراتا ہوں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا﴾ ” سمجھ بوجھ کر“ یعنی میں اپنے دین کے بارے میں بغیر کسی شک و شبہ کے پورے علم و یقین پر ہوں۔ ﴿وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ ” اور میرے متبعین بھی“ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جیسے میں اللہ تعالیٰ کے معاملے میں پوری بصیرت اور یقین کے ساتھ اس کی طرف بلاتا ہوں۔ ﴿وَسُبْحَانَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اللہ پاک ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے تمام امور کی نسبت سے پاک ہے جو اس کے کمال کے منافی ہیں اور اس کے جلال کے لائق نہیں۔ ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ ” میں کسی بھی معاملے میں مشرکین میں شامل نہیں۔“ بلکہ دین کو صرف اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں۔