سورة النسآء - آیت 95

لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ہوسکتے۔ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجات میں فضیلت دے رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر ایک سے اچھائی کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر بہت بڑی فضیلت اور عظیم اجر کا مستحق ٹھہرایا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رضي الله عنه) (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر وثواب حاصل نہیں کر سکیں گے درآں حالیکہ ہمارا گھر میں بیٹھ رہنا بطور شوق، یا جان کی حفاظت کے نہیں ہے بلکہ عذر شرعی کی وجہ سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ ( بغیر عذر کے) کا استثنا نازل فرمایا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ”حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ“ ان کو عذر نے روکا ہوا ہے (صحیح بخاری، کتاب الجہاد ) 2- یعنی جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔