سورة التحريم - آیت 12

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ“ دوسری مثال عمران کی بیٹی مریم کی دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی۔ ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی، اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا وآخرت میں شرف وکرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ 2- کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔ 3- یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں رضی اللہ عنہن۔ (مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (رضی اللہ عنہن) ہیں اور عائشہ (رضی الله عنہا) کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔