سورة التغابن - آیت 6

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آئے مگر انہوں نے کہا کیا انسان ہماری راہنمائی کریں گے؟ انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور منہ پھیر لیا تب اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہوگیا اور اللہ تو بے نیاز اور حمد کے لائق ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ذَلِكَ ،یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف، جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔ 2- یہ ان کے کفر کی علت ہے کہ انہوں نے یہ کفر، جو ان کے عذاب دارین کا باعث بنا ، اس لیے اختیار کیا کہ انہوں نے ایک بشر کو اپنا ہادی ماننے سے انکار کر دیا۔ یعنی ایک انسان کا رسول بن کر لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آنا، ان کے لیے ناقابل قبول تھا جیسا کہ آج بھی اہل بدعت کے لیے رسول کو بشر ماننا نہایت گراں ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى۔ 3- چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ماننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ 4- یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے ، اس پر انہوں نے غور وتدبر ہی نہیں کیا۔ 5- یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔ 6- اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟ 7- یا محمود ہے (تعریف کیا گیا) تمام مخلوقات کی طرف سے۔ یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔