سورة الأحقاف - آیت 20

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جس دن کافر آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ ان سے کہا جائے گا تم اپنے حصے کی نعمتیں دنیا کی زندگی میں پا چکے اور تم نے ان سے لطف اٹھا لیا، تم بلاوجہ زمین میں تکبر کرتے تھے اور تم نے نافرمانیاں کیں ان کی پاداش میں تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے۔ بعض نے يُعْرَضُونَ کے معنی يُعَذَّبُونَ کے کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے۔ مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی (تُعْرَضُ النَّارُ عَلَيْهِمْ) (فتح القدير)۔ 2- طَيِّبَاتٌ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے ہیں۔ لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے، جیسے مومن کرتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی کی اطاعت کرکے شکر الٰہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے۔ لیکن فکر آخرت سے بے نیازی کےساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔ چنانچہ مومن کو تو اس کے شکر واطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ اس سے بدر جہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔ جب کہ کافروں کو وہی کچھ کہا جائے گا جو یہاں آیت میں مذکور ہے۔ ﴿أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ . . . . کا دوسرا ترجمہ ہے دنیا کی زندگی میں تم نے اپنے مزے اڑا لیے اور خوب فائدہ اٹھا لیا۔ 3- ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بے خوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب۔ یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہئے۔ ملحوظہ۔ بعض صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے سامنے عمدہ وغیرہ آتی تو یہ آیت انہیں یاد آجاتی اور وہ اس ڈر سےاسے ترک کر دیتے کہ کہیں آخرت میں ہمیں بھی یہ نہ کہہ دیا جائے کہ تم نے اپنے مزے دنیا میں لوٹ لیے۔ تو یہ ا ن کی وہ کیفیت ہے جو غایت ورع اور زہد وتقویٰ کی مظہر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھی نعمتوں کا استعمال وہ جائز نہیں سمجھتے تھے۔