سورة فصلت - آیت 47

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، جو اپنے شگوفوں سے نکلنے والے پھل اس کے علم میں ہیں، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے، پھر جس دن وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک۔ یہ کہیں گے ہم عرض کرچکے ہیں آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا کسی کو علم نہیں۔ اسی لیے جب حضرت جبرائیل (عليہ السلام) نے نبی کریم (ﷺ) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا [ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ]، (اس کی بابت مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا﴾ (النازعات: 44) ﴿لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلا هُوَ﴾ (الأعراف: 187)۔ 2- یہ اللہ کے علم کامل ومحیط کا بیان ہے اور اس کی اس صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔ انہیں بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ اور اس علم و حی کا تعلق بھی منصب نبوت اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے متعلق ہی ہوتا ہے نہ کہ دیگر فنون ومعاملات سے متعلق۔ اس لیےکسی بھی نبی اور رسول کو، چاہے وہ کتنی ہی عظمت شان کا حامل ہو، عَالِمُ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ صرف ایک اللہ کی شان اور اس کی صفت ہے۔ جس میں کسی اور کو شریک ماننا شرک ہوگا۔ 3- یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے؟