سورة الزمر - آیت 21

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر وہ اس پانی کے ذریعہ سے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں پھر آپ دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑجاتی ہیں پھر آخر کار اللہ ان کو بھس بنا دیتا ہے۔ درحقیقت اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے ایک سبق ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- يَنَابِيعُ يَنْبُوعٌ کی جمع ہے، سوتے، چشمے، یعنی بارش کے ذریعے سےپانی آسمان سےاترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہو جاتا ہے۔ 2- یعنی اس پانی سے، جو ایک ہوتا ہے، انواع واقسام کی چیزیں پیدا فرماتا ہے، جن کا رنگ، ذائقہ، خوشبو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ 3- یعنی شادابی اور تروتازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہو جاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 4- یعنی اہل دانش اس سے سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا کی مثال بھی اسی طرح ہے، وہ بہت جلد زوال وفنا سے ہمکنار ہو جائے گی۔ اس کی رونق وبہجت، اس کی شادابی وزینت اور اس کی لذتیں اور آسائشیں عارضی ہیں، جن سے انسان کو دل نہیں لگانا چاہئے۔ بلکہ اس موت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہئے جس کے بعد کی زندگی دائمی ہے، جسے زوال نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ قرآن اور اہل ایمان کے سینوں کی مثال ہے اور مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے قرآن اتارا، جسے وہ مومنوں کے دلوں میں داخل فرماتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے دین باہر نکلتا ہے جو ایک دوسرے سے بہتر ہوتا ہے، پس مومن تو ایمان ویقین میں زیادہ ہو جاتا ہے اور جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، وہ اس طرح خشک ہو جاتا ہے جس طرح کھیتی خشک ہو جاتی ہے۔(فتح القدیر)۔