سورة الأنبياء - آیت 84

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے شفادی۔ صرف اہل وعیال ہی اسے نہیں دیے بلکہ اپنی خاص رحمت کے ساتھ اسے ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے یہ نصیحت ہے عبادت گزاروں کے لیے۔“ (٨٤)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- قرآن مجید میں حضرت ایوب (عليہ السلام) کو صابر کہا گیا ہے، (سورۂ ص:44) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں مال ودولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالٰی نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتٰی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ 8ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال واولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ (اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ایک روایت میں ملتی ہے ج4، ص244، ومجمع الزوائد8/208)، جس کا اظہار حضرت ایوب (عليہ السلام) نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے اس کے لئے 'ہم نے قبول کر لی' کے الفاظ استعمال فرمائے۔