سورة طه - آیت 131

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور نہ دراز کریں اپنی نگاہ کو دینوی زندگی کی شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ہم نے انہیں آزمانے کے لیے دنیا دی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔“ (١٣١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ آل عمران: 196، 197، سورہ حجر: 87، 88 اور سورہ کہف: 7 وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔ 2- اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال واسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی (ﷺ) نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا (بخاری، سورة التحريم- مسلم- باب الإيلاء)