سورة یونس - آیت 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اگر اللہ لوگوں کو بہت جلد بھلائی دینے کی طرح جلد نقصان پہنچائے تو ان کی طرف ان کی مدت پوری کردی جائے۔ تو جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انھیں چھوڑ دیتے ہیں، وہ اپنی سرکشی ہی میں حیران پھرتے ہیں۔“ (١١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے، اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے، اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو کبھی کے یہ موت اور ہلاکت سے دوچار ہو چکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انہیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لئے بد دعائیں کرتا ہے، جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے، مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بد دعاؤں کے مطابق، انہیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں، تو پھر جلدی ہی لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہو جایا کریں اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ " تم اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال و کاروبار کے لئے بد دعائیں مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعائیں، اس گھڑی کو پا لیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں، پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے"۔ (سنن أبی داؤد، کتاب الوتر، باب النهی عن أن یدعو الأنسان علی أهله وماله ومسلم، کتاب الزهد، فی حدیث جابر الطویل