سورة التوبہ - آیت 100

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور سب سے پہلے لوگ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے نیک کاموں میں ان کی اتباع کی اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ پر راضی ہوگئے۔ اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (١٠٠)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے ایک مہاجرین کا جنہوں نے دین کی خاطر، اللہ اور رسول (ﷺ) کے حکم پر مکہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آگئے دوسرا انصار جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ (ﷺ) کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی خوب پذیرائی اور تواضع کی۔ اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے سابقون الاولون کا ذکر فرمایا ہے، یعنی دونوں گروہوں میں سے وہ افراد جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سب سے پہلے سبقت کی۔ اس کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک سابقون الاولون وہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ یعنی تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہونے والے مہاجرین و انصار۔ بعض کے نزدیک یہ وہ صحابہ (رضی الله عنہم) ہیں جو حدیبیہ میں بیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بعض کے نزدیک یہ اہل بدر ہیں۔ امام شوکانی فرماتےہیں کہ یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو ان مہاجرین و انصار کے خلوص اور احسان کے ساتھ پیروکار ہیں۔ اس گروہ سے مراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے نبی (ﷺ) کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا یعنی قیامت تک جتنے بھی انصار ومہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں، وہ اس میں شامل ہیں۔ ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں۔ 2- اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوگیا کا مطلب ہے۔ کہ اللہ تعالٰی نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی؟، جو اس آیت میں دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رضائے الٰہی مؤقت اور عارضی نہیں، بلکہ دائمی ہے اگر رسول اللہ (ﷺ) کے بعد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو مرتد ہوجانا تھا (جیسا کہ ایک باطل ٹولے کا عقیدہ ہے) تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی بشارت سے نہ نوازتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب اللہ نے ان کی ساری لغزشیں معاف فرمادیں تو اب تنقیص وتنقید کے طور پر ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کرنا کسی مسلمان کی شان کے لائق نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی محبت اور پیروی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے اور ان سے عداوت اور بغض وعناد رضائے الٰہی سے محرومی کا باعث ہے۔ ﴿فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾۔