سورة التوبہ - آیت 99

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور کچھ دیہاتی وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربتوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آگاہ رہو ! یقیناً صدقہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے، عنقریب انھیں اللہ اپنی رحمت میں لے گا۔ بے شک اللہ بہت بخشنے، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (٩٩)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ اعراب کی دوسری قسم ہے جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرما دی جو بدویت کی وجہ سے اہل بادیہ میں عام طور پر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے۔ اللہ کے قرب کا اور رسول (ﷺ) کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ (ﷺ) کے اس طرز عمل کی طرف، جو صدقہ دینے والوں کے بارے میں آپ (ﷺ) کا تھا۔ یعنی آپ ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لئے آپ (ﷺ) نے دعا فرمائی [ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی ] (صحیح بخاری نمبر 4166 ، صحیح مسلم نمبر 756) ”اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت نازل فرما“ 2- یہ خوشخبری ہے کہ اللہ کا قرب انہیں حاصل ہے اور اللہ کی رحمت کے وہ مستحق ہیں۔