سورة التوبہ - آیت 83

فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر اگر اللہ آپ کو ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے وہ پھر آپ سے لڑائی کے لیے نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ فرما دیں تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکل سکتے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑسکتے بے شک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے بس پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔“ (٨٣)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالٰی آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔ 2- یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔ 3- یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔ 4- یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (ﷺ) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم وغم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ (اگر تھا)