سورة الانعام - آیت 111

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اگر ہم واقعی ان کی طرف فرشتے اتاردیتے اور ان سے مردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لاجمع کرتے تو بھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے لیکن ان کے اکثر جہالت سے کام لیتے ہیں۔“ (١١١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

آیت ۱۱۱ فرماتا ہے کہ ’ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے -یہ غلط کہتے ہیں تمہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو جانا چاہیئے ‘ ۔ یہ کہتے ہیں کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:21) ’ اگر فرشتے اترتے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آ جانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ یہ رسول برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ، یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں ‘ کہ «أَوْ تَأْتِیَ بِ اللہِ وَالْمَلَائِکَۃِ قَبِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:92) ’ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ ۔ کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ ‘ ۔ کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ ، یہ سب حجت بازی اور حیلے حوالے ہیں ، دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں ، اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آ جائیں اور کہہ دیں کہ یہ رسول برحق ہیں ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ «قُبُلًا» کی دوسری قرأت «قِبَلًا» ہے جس کے معنی مقابلے اور معائنہ کے ہوتے ہیں ایک قول میں «قُبُلاً» کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ۔ ہاں مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ” اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں ان کے سامنے اگر ایک امت آ جاتی اور رسولوں کی ہدایت دیدے وہ جو کرنا چاہے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا اور وہ چونکہ حاکم کل ہے ہر ایک سے بازپرس کر سکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے ، حاکم و غالب و قہار ہے “ اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» (10-یونس:97-96) یعنی ’ جن لوگوں کے ذمہ کلمہ عذاب ثابت ہو گیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں ‘ ۔