سورة الانعام - آیت 74

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے ؟ بے شک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتاہوں۔ (٧٤)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ” ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا ۔ آزر سے مراد بت ہے ۔ آپ علیہ السلام کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا ۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کا نام ہاجرہ رضی اللہ عنہا تھا یہ ابراہیم علیہ السلام کی سریہ تھیں “ ۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں ۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے ۔ سلیمان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ علیہ السلام کی زبان سے نکلا ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو ۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ «آزَر» اور «آزُر» دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت «لِأَبِیہِ» سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے ۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود ۔ بعض اسے «أَتَتَّخِذُ» کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں -گویا ابراہیم علیہ السلام یوں فرماتے کہ ” اے باپ ، کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں ؟ “ لیکن یہ دور کی بات ہے -خلاف لغت ہے کیونکہ حرف اتفہام کے بعد الا پنے سے پہلے میں عامل نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ اس کے لیے ابتداء کلام کا حق ہے ۔ عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے ۔ الغرض ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے ۔ آیت میں ہے کہ «وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّہُ کَانَ صِدِّیقًا نَّبِیًّا إِذْ قَالَ لِأَبِیہِ یَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِی عَنکَ شَیْئًا یَا أَبَتِ إِنِّی قَدْ جَاءَنِی مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِی أَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا یَا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَن یَمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُونَ لِلشَّیْطَانِ وَلِیًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیمُ لَئِن لَّمْ تَنتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّی إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ وَأَدْعُو رَبِّی عَسَیٰ أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا» ۱؎ (19-مریم:41-48) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو جو اللہ کا حق ہے ۔ یقیناً اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں کہ صدیق نبی ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا ، ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں ۔ ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی ۔ اپ میری بات مان لیجئے ۔ میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا ۔ ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے ۔ وہ تو رحمن کا نافرمان ہے ۔ ابا مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں ۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراھیم [ علیہ السلام ] کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے ؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ۔ پس اب تو مجھ سے الگ ہو جا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ، اچھا میرا سلام لو ۔ میں اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا ۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے ۔ میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں ، چھوڑتا ہوں ۔ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ۔ ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بے نصیب اور خالی ہاتھ رہوں ۔ چنانچہ حسبِ وعدہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ علیہ السلام نے استغفار بند کر دیا اور بیزار ہوگئے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے «وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَہِیمَ لاًّبِیہِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَآ إِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِلہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَہِیمَ لأَوَّاہٌ حَلِیمٌ» ۱؎ (9-التوبۃ:114) ’ ابراھیم علیہ السلام کا پنے باپ کے لیے استغفار کرنا ایک وعدے کی بناء پر تھا -پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہو گئے و اقعی ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور بردبار تھے ‘ - حدیث صحیح میں ہے { قیامت کے روز ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے ملیں گے تو آزر ان سے کہے گا اے بیٹے ! آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا ۔ اورآج میرے لئے اس سے بڑی اور کون سی رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے تو ارشاد فرمایا جائے گا کہ ’ اے ابراہیم ! تم اپنے پیچھے دیکھو تو ‘ وہ اپنے باپ کو دیکھنے کی بجائے ایک بجو کو دیکھیں گے ، جو کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اس کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3350) ’ مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آ جائے اس لیے ہم نے ابراھیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھادی ‘ جیسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللہُ مِن شَیْءٍ» ۱؎ (7-الأعراف:185) اور جگہ ہے «أَفَلَمْ یَرَوْا إِلَیٰ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مٰنِیبٍ» ۱؎ (34-سبأ:9) ۔ یعنی ’ کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لیے جو [ دل سے ] متوجہ ہو ‘ ۔ ‏ ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ” ابراہیم علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے آسمان پھٹ گئے تھے اور ابراہیم علیہ السلام آسمان کی سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ساتوں زمینیں ان کے لیے کھل گئیں اور وہ زمین کے اندر کی چیزیں دیکھنے لگے “ ۔ بعض نے اس مضمون کا بھی اضافہ کیا ہے کہ ” وہ لوگوں کے معاص کو بھی دیکھنے لگے تھے اور ان گنہگاروں پر بد دعا کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ نہیں اے ابراہیم [ علیہ السلام ] ! میں تم سے زیادہ اپنے بندوں پر کریم ہوں کیا عجب کہ بعد کو وہ توبہ کر لیں اور رجوع کر لیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی قدرت سے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی اور علانیہ ساری چیزیں دکھلا دیں ان میں کچھ بھی چھپا نہ رہا ۔ اور جب وہ اصحاب گناہ پر لعن کر رہے تھے تو فرمایا کہ ’ ایسا نہیں اور ان کی بد دعا کو رد کر دیا ‘ ۔ پھر وہ حسب سابق ہو گئے “ ۔ اس لیے محتمل ہے کہ ان کی نگاہوں پر سے پردہ ہٹ گیا ہو جہاں ان کے لیے عیاں ہو گیا ہو ۔ اور یہ بھی محتمل ہے کہ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہو ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت باہرہ اور دلالت قاطعہ کو معلوم کر لیا ہو ۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب مروی ہے کہ { عالم خواب میں اللہ تعالیٰ ایک بہترین شکل میں میرے پاس آیا اور فرمانے لگا اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] املا اعلیٰ میں کیا بحث ہو رہی ہے ؟ ‘ میں نے کہا یا رب میں نہیں جانتا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں پنے سینے میں پانے لگا ۔ پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3235،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ» میں «وَلِیَکُونَ» کا واؤ زائد ہے ۔ اس کی تقدیر یوں ہوئی کہ «وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:75) یعنی بغیر واؤ کے جیسے کہ اس آیت «[ وَکَذَلِکَ ] نُفَصِّلُ الْآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ» ۱؎ (6-الأنعام:55) میں ۔ اس میں «الْآیَاتِ» کے بعد واؤ زائد ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زائد نہیں ہے بلکہ سابقہ بات کی بنیاد پر بات کو اٹھایا گیا ہے ۔ یعنی ’ ہم نے اس پر ملکوت ظاہر کر دیا تاکہ وہ دیکھے اور یقین بھی کرلے ‘ ۔ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہی مروی ہے ۔ ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے ، اس کی دلیل میں آپ رحمہ اللہ کا یہ قول لاتے ہیں کہ ” اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا “ - امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے : نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں ، وہیں خلیل اللہ علیہ السلام پیدا ہوئے ، تو جب آپ علیہ السلام اس غار سے باہر نکلے تب آپ علیہ السلام نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے ، اول تو آپ علیہ السلام نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے ۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اس لیے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی ۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں ۔ پوجتے تھے ، چاند ، عطارد ، زہرہ ، سورج ، مریخ ، مستری ، زحل ۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے ، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ علیہ السلام نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے ۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں یہ مقررہ چال سے چلتا اور مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا ۔ تو جبکہ وہ خود بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے ۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہےپھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے ؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ ” لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے ، ان کی عبادت سے ، ان کی عقیدت سے ، ان کی محبت سے دور ہوں -سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو ۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے “ ۔ جیسے قرآنی ارشاد ہے : «إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِہِ أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَـلَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے ‘ ۔ یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ سلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ علیہ السلام اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَلَقَدْ ءَاتَیْنَآ إِبْرَہِیمَ رُشْدَہُ مِن قَبْلُ وَکُنَّا بِہِ عَـلِمِینَ ـ إِذْ قَالَ لاًّبِیہِ وَقَوْمِہِ مَا ہَـذِہِ التَّمَـثِیلُ الَّتِی أَنتُمْ لَہَا عَـکِفُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:51-52) ’ ہم نے پہلے سے ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو ؟ ‘ اور آیت میں ہے : « إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاکِرًا لِأَنْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (16-النحل:120-123) ’ بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے ۔ ‏ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی ۔ ‏ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکو کاروں میں ہیں ۔ ‏ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں ، جو مشرکوں میں سے نہ تھے ‘ ۔ ‏ بخاری و مسلم میں ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے } -۱؎ (صحیح بخاری:4775) صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے { میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) کتاب اللہ میں ہے : «فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) ’ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں ‘ اور آیت میں ہے : «وَإِذْ أَخَذَ رَبٰکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی» ۱؎ ( 7-الأعراف : 172 ) ’ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ‘ ۔ پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاءاللہ ۔ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمن ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے ۔ نہیں نہیں آپ علیہ السلام کی فطرت سالم تھی آپ علیہ السلام کی عقل صحیح تھی آپ علیہ السلام اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے ۔ آپ علیہ السلام کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبردست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ۔