سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ فرما دیجئے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سکھلائے ہیں جنہیں تم سکھلاتے ہو، جیسے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ، جو وہ تمہارے لیے روک رکھیں۔ اور اس پر اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“ (٤)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شکاری کتے اور شکار چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں ، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت «وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ» ۱؎ (6-الأنعام:119) یعنی ’ تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آ چکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بے بس اور بے قرار ہو جاؤ ‘ ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ ’ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہہ دیجئیے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ‘ ۔ سورۃ الأعراف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ «وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ’ آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ” قبیلہ طائی کے دو شخصوں عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہو چکا اب حلال کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری ۔ سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں “ ۔ ۱؎ (ضعیف: اس کی سند میں عبد اللہ بن لہیعۃ ضعیف ہے ) مقاتل رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔ امام زہری رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے ؟ جواب دیا کہ ” وہ طیبات میں داخل نہیں “ ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں ؟ فرمایا ” وہ طیبات میں داخل نہیں “ ۔ ’ اور تمہارے لیے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے ‘ مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شِکرے وغیرہ کے ذریعے ۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین ائمہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شکاری سدھائے ہوئے کتے ، باز ، چیتے ، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جا سکتا ہو “ اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:548/9) کہ ” پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کر لے ، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے “ ۔ لیکن مجاہد رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت «وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۡ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰہَ» ۱؎ (5-المائدہ:4) پڑھا ہے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھا لو ورنہ نہ کھاؤ “ ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو ، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے ، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ چاروں اماموں رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس جانور کو وہ تیرے لیے روک رکھے تو اسے کھا لے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1467،قال الشیخ الألبانی:منکر) امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے ، اس لیے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں ، گدھا ، عورت اور سیاہ کتا ۔ اس پر ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شیطان ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:510) دوسری حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا : { انہیں کتوں سے کیا واسطہ ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1573) شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو ، جیسے عرب کہتے ہیں «فُلاَنٌ جَرَحَ اَہْلَہُ خَیْراً» یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے ہیں «فُلاَنٌ لَاَّ جَارِحَ لَہُ» شخص کا کوئی کماؤ نہیں ، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت «وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ» ۱؎ (6-الأنعام:60) یعنی ’ دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے ‘ ۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس امت کے قتل کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ان سے ہمارے لیے کیا فائدہ حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور «بِسْمِ اللہِ » بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھا لے } } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:311/2:ضعیف) ابن جریر میں ہے { جبرائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے ؟ } اس پر فرشتے نے کہا ! ” ہم اس گھر میں نہیں جاتے ، جس میں کتا ہو “ ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ { مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں } ، ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ” میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا ، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا ، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا ، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ { اسے بھی باقی نہ چھوڑو } ، ” میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کر دیا “ ۔ اب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لیے حلال بھی ہے یا نہیں ؟ اس پر آیت «یَسْأَلُونَکَ مَاذَا أُحِلَّ لَہُمْ» الخ ، نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:311/2:ضعیف) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی عاصم بن عذی سعید بن خیثمہ عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہم ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11138:مرسل) محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے «مُکَلِّبِیْنَ» ‏‏‏‏ کا لفظ ممکن ہے کہ «‏‏‏‏عَلَّمْـتُمْ» ‏‏‏‏کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ «جَوَارِح» یعنی مقتول کا حال ہو ۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں ، اس سے بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہو گا ۔ جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے ۔ اسی لیے فرمایا ’ تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں سکھا رکھا ہے ‘ یعنی جب تم چھوڑو ، جائے ، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لیے روک رکھے ۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو ، اس نے خود اپنے لیے اسے شکار نہ کیا ہو ۔ اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو ، اس پر اجماع ہے ۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھا لے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو ، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لیے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو «بِسْمِ اللہِ » پڑھ کر نہیں چھوڑا } ۔ میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں ۔ فرمایا : { اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھا لے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5476) دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ { جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لیے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لیے کہ کتے کا اسے شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5484) اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ { اگر اس نے کھا لیا ہو تو پھر اسے نہ کھا ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:5487) یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی رحمہ اللہ کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھا لے تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے ۔ ان کے دلائل یہ ہیں ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھا لیا ہو “ ۔ سیدنا سعید بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں “ ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے “ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جب «بِسْمِ اللہِ » کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لیے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھا لے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو “ ، یہی مروی ہے سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ۔ عطاء اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں ، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ اسی کی طرف امام شافعی رحمۃ اللہ اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھا لیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے } } ۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا سلمان سے سننامعلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے { عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو جانور وہ تیرے لیے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے } ، اس نے کہا ذبح کر سکوں جب بھی اور ذبح نہ کر سکوں تو بھی ؟ اور اگرچہ کتے نے کھا لیا ہو تو بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں گو کھا بھی لیا ہو } ۔ انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے ؟ فرمایا : { اسے بھی تو کھا سکتا ہے } ، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کر سکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مر جائے تو بھی ؟ فرمایا { بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی ۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو } ، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لیے کیسا ہے ؟ فرمایا { تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2857،قال الشیخ الألبانی:حسن لکن قولہ وإن أکل منہ منکر) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے { جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لیے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2852،قال الشیخ الألبانی:منکر) ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ { تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لیے کھیلے تو اسے کھا لے ، سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھا لیا ہو فرمایا : { ہاں پھر بھی } } ۔ ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھا لیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے ۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں ۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھا لیا تو بقیہ حلال ۔ پہلی بات پر محمول ہے عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں ۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارہ میں یہ وضاحت کرے تو «اَلْحَمْدُ لِلہِ» یہ وضاحت لوگوں نے کرلی ۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لیے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” اگر پرندہ اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھا لے “ ۔ ابراہیم نخعی ، شعبی ، حماد بن سلیمان رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ { عدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لیے کیا حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لیے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھا لو } ۔ پھر فرمایا : { جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھا لے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو } میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں ؟ تو ؟ فرمایا: { پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے } ۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کون سا حلال ہے ؟ فرمایا { جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھا لے } } ۔ ۱؎ (ضعیف) وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی ، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہو گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ’ تم کھا لو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو ‘ ۔ جیسے کہ عدی اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہم کی حدیث میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:5478) اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھنا شرط ہے ۔ جمہور کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت «بِسْمِ اللہِ » کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں “ ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھنا ہے ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابوسلمہ کے ربیبہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا مروی ہے کہ { اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5376) صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ { لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں ؟ تو کیا ہم اسے کھالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5507) مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر دو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آ جائے کہدے «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:143/6:حسن بالشواہد) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3264،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسری سند سے یہ حدیث ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3767 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) جابربن صبیح رحمہ اللہ فرماتے ہیں مثنی بن عبدالرحمٰن خزاعی رحمہ اللہ کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» کہہ لیا کرتے میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے خالد بن امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھاتے ہوئے دیکھا کہ اس نے «بِسْمِ اللہِ » نہیں پڑھی ، یہاں تک کہ جب آخر میں پہنچا تو بولا «بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلِہُ وَ اٰخِرِہُ» ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { واللہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہا جب تک اس نے «بِسْمِ اللہِ » نہ کہہ لی ، پھر تو شیطان نے قے کرکے سارا کھانا اپنے پیٹ سے نکال دیا } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3768،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی رحمہ اللہ علیہم تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی ، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا : { جب کسی کھانے پر «بِسْمِ اللہِ » نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لیے حلال کر لیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2017) مسلم ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ { جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اے شیطانوں نہ تو تمہارے لیے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ رات کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2018) مسند ، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ { ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور «بِسْمِ اللہِ » کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:3764،قال الشیخ الألبانی:حسن)