سورة الہب - آیت 1

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہو گیا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بدترین اور بدنصیب میاں بیوی صحیح بخاری میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے «یَا صَبَاحَاہُ ، یَا صَبَاحَاہُ» کہنے لگے قریش سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟“ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سنو ! میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں“ ، تو ابولہب نے کہا : تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری} ۱؎ (صحیح بخاری:4972) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ «تَبَّتْ» بد دعا ہے اور «تَبَّ» خبر ہے ، یہ ابولہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابوعتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابولہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذا دہی تکلیف رسانی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ۔ سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں : ” لوگو ! «لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ» کہو تو فلاح پاؤ گے“ ، لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا : لوگو ! یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابولہب ہے ۔ «لعنہ اللہ» [مسند احمد] ابو الزیاد نے راوی حدیث ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے ؟ فرمایا : نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:341/4:صحیح لغیرہ) دوسری روایت میں ہے {میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے : لوگو ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابولہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا ، اے فلاں قبیلے کے لوگو ! یہ شخص تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہے اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا} ۔ ۱؎ (مسند احمد:492/3:ضعیف) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابولہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابولہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیتیں «مَا أَغْنَیٰ عَنْہُ مَالُہُ وَمَا کَسَبَ» ۱؎ (111-المسد:2) ، اتری ۔ پھر فرمایا : کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے والی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابوسفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اس لیے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لکڑیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ «حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ» سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ «مسد» کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لیے یوں کہتی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ «مُذَمَّمَا اَبَیْنَا ... وَدِیْنَہ قَلَیْنَا ... وَاَمْرَہ عَصَیْنَا» یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ... اور اس کے دین کے دشمن ہیں ... اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسے اس حالت میں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا : ”صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی“ ، پھر آپ نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے «وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُورًا » ۱؎ (17-الإسراء:45) یعنی ’جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں‘ ۔ یہ ڈائن آ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہو گئی گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی مجھے معلوم ہوا ہے کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے یعنی شعروں میں میری مذمت کی ہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ، نہیں ، رب البیت کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش تو جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:361/2:صحیح) [ابن ابی حاتم] ایک مرتبہ یہ اپنی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سب ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ { اس نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانتے ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں ؟ آپ نے فرمایا : ”فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی“ } ۱؎ ۔ (مسند ابویعلی:23585:حسن) بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں ڈال دیا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب «مسد» کہہ دیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ۔ ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے ، نہ باطن میں ، نہ چھپے ، نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ۔ اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔