سورة النسآء - آیت 113

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان کی ایک جماعت نے تمہیں بہکانے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ اور وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ ہی کو اور یہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری اور تمہیں وہ سکھایا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا فضل ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. اس کے بعد کی«وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّائِفَۃٌ مِّنْہُمْ أَن یُضِلٰوکَ وَمَا یُضِلٰونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (4-النساء:113) کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے یعنی سیدنا لبید بن عروہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بنوابیرق کے چوروں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلیت سے دور رکھنے کا سارا کام پورا کر لیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کر دیا ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکم سے مراد سنت ہے ۔ نزول وحی سے پہلے آپ جو نہ جانتے تھے ان کا علم پروردگار نے آپ کو بذریعہ وحی کر دیا جیسے اور آیت میں ہے«وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ » ۱؎ (42-الشوری:52) اور آیت میں ہے«وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یٰلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّـلْکٰفِرِیْنَ» ۱؎ (28-القصص:86) اسی لیے یہاں بھی فرمایا ۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں جو آپ کے شامل حال ہے ۔