سورة فصلت - آیت 33

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کسی کی ہوسکتی ہے کہ جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالٰی کا محبوب انسان فرماتا ہے ’ جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہو گی ؟ ‘ یہ ہے جس نے اپنے تئیں نفع پہنچایا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا ۔ یہ ان میں نہیں جو منہ کے بڑے باتونی ہوتے ہیں جو دوسروں کو کہتے تو ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کہتا ہے ۔ یہ آیت عام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اولیٰ طور پر اس کے مصداق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے مصداق اذان دینے والے ہیں جو نیک کار بھی ہوں ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے { قیامت کے دن مؤذن سب لوگوں سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:387) سنن میں ہے { امام ضامن ہے اور مؤذن امانتدار ہے اللہ تعالیٰ اماموں کو راہ راست دکھائے اور موذنوں کو بخشے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:517،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اذان دینے والوں کا حصہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مثل جہاد کرنے والوں کے حصے کے ہے ۔ اذان و اقامت کے درمیان ان کی وہ حالت ہے جیسے کوئی جہاد میں راہ اللہ میں اپنے خون میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہو “ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” اگر میں مؤذن ہوتا تو پھر مجھے حج و عمرے اور جہاد کی اتنی زیادہ پروانہ نہ رہتی “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے { اگر میں مؤذن ہوتا تو میری آرزو پوری ہو جاتی ۔ اور میں رات کے نفلی قیام کی اور دن کے نفلی روزوں کی اس قدر تگ ودو نہ کرتا ۔ میں نے سنا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار موذنوں کی بخشش کی دعا مانگی ۔ اس پر میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں ہمیں یاد نہ فرمایا حالانکہ ہم اذان کہنے پر تلواریں تان لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ! لیکن اے عمر ! ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ مؤذنی غریب مسکین لوگوں تک رہ جائے گا ۔ سنو عمر جن لوگوں کا گوشت پوست جہنم پر حرام ہے ان میں مؤذن ہیں } } ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { اس آیت میں بھی موذنوں کی تعریف ہے اس کا «حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ» کہنا اللہ کی طرف بلانا ہے } ۔ ۱؎ (ضعیف) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت مؤذنوں کے بارے میں اتری ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ عمل صالح کرتا ہے اس سے مراد اذان و تکبیر کے درمیان دو رکعت پڑھنا ہے “ ۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے { دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے دو اذانوں کے درمیان نماز ہے جو چاہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:624) ایک حدیث میں ہے کہ { اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی } ۔۱؎ (سنن ابوداود:521،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بات یہ ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے مؤذن غیر مؤذن ہر اس شخص کو شامل ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ۔ یہ یاد رہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تو سرے سے اذان شروع ہی نہ تھی ۔ اس لیے کہ آیت مکے میں اترتی ہے اور اذان مدینے پہنچ جانے کے بعد مقرر ہوئی ہے جبکہ عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خواب میں اذان دیتے دیکھا اور سنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بلال کو سکھاؤ ۔ وہ بلند آواز والے ہیں } ۔ پس صحیح بات یہی ہے کہ آیت عام ہے اس میں مؤذن بھی شامل ہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں ” یہی لوگ حبیب اللہ ہیں ۔ یہی اولیاء اللہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں یہی سب سے زیادہ اللہ کے محبوب ہیں کہ انہوں نے اللہ کی باتیں مان لیں پھر دوسروں سے منوانے لگے اور اپنے ماننے میں نیکیاں کرتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے رہے یہاں اللہ کے خلیفہ ہیں ، بھلائی اور برائی نیکی اور بدی برابر برابر نہیں بلکہ ان میں بے حد فرق ہے جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر اور اس کی برائی کو اس طرح دفع کر “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ” تیرے بارے میں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے تو تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمابرداری کر اس سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسا کرنے سے تیرا جانی دشمن دلی دوست بن جائے گا ‘ ، اس وصیت پر عمل اسی سے ہو گا جو صابر ہو نفس پر اختیار رکھتا ہو اور ہو بھی نصیب دار کہ دین و دنیا کی بہتری اس کی تقدیر میں ہو “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ایمان والوں کو اللہ کا حکم ہے کہ وہ غصے کے وقت صبر کریں اور دوسرے کی جہالت پر اپنی بردباری کا ثبوت دیں اور دوسرے کی برائی سے در گزر کر لیں ایسے لوگ شیطانی داؤ سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے دشمن بھی پھر تو ان کے دوست بن جاتے ہیں “ ۔ اب شیطانی شر سے بچنے کا طریقہ بیان ہو رہا ہے کہ ’ اللہ کی طرف جھک جایا کرو اسی نے اسے یہ طاقت دے رکھی ہے کہ وہ دل میں وساوس پیدا کرے اور اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اس کے شر سے محفوظ رکھے ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں فرماتے تھے { «أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیعِ العَلِیم مِنَ الشَّیطانِ الرَّجِیمِ مِن ہَمْزِہِ وَنَفْثِہِ وَنَفْخِہِ ومِنْ ہَمَزَاتِ الشّیَاطِینِ وَأَعُوذَ بَکَ رَبِّی أَنْ یَحْضُرُونِ» } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:775،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس مقام جیسا ہی مقام صرف سورۂ اعراف میں ہے جہاں ارشاد ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ» ۱؎ (7-الأعراف:199) ، اور سورۃ مومنین کی آیت «اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ» ۱؎ (23-المؤمنون:96) ، میں حکم ہوا ہے کہ ’ در گزر کرنے کی عادت ڈالو اور اللہ کی پناہ میں آ جایا کرو برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا کرو ‘ وغیرہ ۔