سورة الفرقان - آیت 61

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بڑابرکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا ہوا چاند روشن کیا۔ (٦١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالٰی کی رفعت و عظمت اللہ تعالیٰ کی بڑائی ، عظمت ، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے ۔ اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں ۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں ۔ اور آیت میں ہے : آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کے ساتھ مزین بنایا ۔ سراج سے مراد سورج ہے ، جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّہَّاجًا» ۱؎ (78-النبأ:13) ’ اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا ۔ ‘ اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے ، دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ ’ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نور بنایا ۔ ‘ ۱؎ (10-یونس:5) نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا : «اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیہِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا» ۱؎ (71-نوح:15-16) ’ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا ۔ ‘ دن رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے ۔ یہ جاتا ہے ، وہ آتا ہے ۔ اس کا جانا اس کا آنا ہے ۔ جیسے فرمان ہے : اس نے تمہارے لیے سورج ، چاند پے در پے آنے جانے والے بنائے ہیں ۔ اور جگہ ہے : رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے ۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے ، نہ رات دن سے سبقت لے سکے ۔ اسی سے اس کے بندوں کو اس کی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں ۔ رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کر لیں ، دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کر لیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے : { اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کر لے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2759) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دن ضحیٰ کی نماز میں بڑی دیر لگا دی ۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا کچھ میرا وظیفہ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا کر لوں یا قضاء کر لوں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ «خِلْفَۃً» کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن ، رات تاریک ۔ اس میں اجالا ، اس میں اندھیرا ۔ یہ نورانی اور وہ ظلماتی ۔