سورة مريم - آیت 71

وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جوجہنم پر وارد نہ ہو یہ ایک طے شدہ فیصلہ ہے جسے پورا کرنا آپ کے رب کے ذمہ ہے۔ (٧١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جہنم میں دخول یا ورود ؟ مسند امام احمد بن حنبل کی ایک غریب حدیث میں ہے { ابو سمیہ فرماتے ہیں جس ورود کا اس آیت میں ذکر ہے ، اس بارے میں ہم میں اختلاف ہوا ، کوئی کہتا تھا مومن اس میں داخل نہ ہوں گے ، کوئی کہتا تھا داخل تو ہوں گے لیکن پھر بہ سبب اپنے تقویٰ کے نجات پا جائیں گے ۔ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مل کر اس بات کو دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، وارد تو سب ہوں گے } ۔ اور روایت میں ہے کہ { داخل تو سب ہوں گے ہر ایک نیک بھی اور ہر ایک بد بھی ، لیکن مومنوں پر وہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی بن جائے گی جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر تھی یہاں تک کہ اس ٹھنڈک کی شکایت خود آگ کرنے لگے گی ، پھر ان متقی لوگوں کا وہاں سے چھٹکارا ہو جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:329/3:ضعیف) خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے ، کہیں گے کہ اللہ نے تو فرمایا تھا کہ ہر ایک جہنم پر وارد ہونے والا ہے اور ہمارا ورود تو ہوا ہی نہیں تو ان سے فرمایا جائے گا کہ تم وہیں سے گزر کر تو آ رہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت آگ ٹھنڈی کر دی تھی “ ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ایک بار اپنی بیوی صاحبہ کے گھٹنے پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ رونے لگے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ صاحبہ بھی رونے لگیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کیوں روئیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو روتا دیکھ کر ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو آیت «وَإِن مِّنکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا کَانَ عَلَیٰ رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا» ۱؎ (19-مریم:71) ، یاد آگئی اور رونا آگیا ۔ مجھے کیا معلوم کہ میں نجات پاؤں گا نہیں ؟ اس وقت آپ بیمار تھے ۔ ابومیسرہ رحمہ اللہ جب رات کو اپنے بستر پر سونے کیلئے جاتے تو رونے لگتے اور زبان سے بےساختہ نکل جاتا کہ کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا کہ آخر اس رونے دھونے کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا یہی آیت ہے ۔ یہ تو ثابت ہے کہ وہاں جانا ہوگا اور یہ نہیں معلوم کہ نجات بھی ہوگی یا نہیں ؟ ایک بزرگ شخص نے اپنے بھائی سے فرمایا کہ آپ کو یہ تو معلوم ہے کہ ہمیں جہنم پر سے گزرنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں یقیناً معلوم ہے ۔ پھر پوچھا کیا یہ بھی جانتے ہو کہ وہاں سے پار ہو جاؤ گے ؟ انہوں نے فرمایا اس کا کوئی علم نہیں ، پھر فرمایا ہمارے لیے ہنسی خوشی کیسی ؟ یہ سن کر اس وقت سے لے کر موت کی گھڑی تک ان کے ہونٹوں پر ہنسی نہیں آئی ۔ نافع بن ارزق اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے تو آپ نے دلیل میں آیت قرآن «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:98) پیش کر کے فرمایا ، دیکھو یہاں ورود سے مراد داخل ہونا ہے یا نہیں ؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے دوسری آیت تلاوت فرمائی «یَـقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ» ۱؎ (11-ھود:98) اور فرمایا بتاؤ فرعون اپنی قوم کو جہنم میں لے جائے گا یا نہیں ؟ پس اب غور کرو کہ ہم اس میں داخل تو ضرور ہوں گے اب نکلیں گے بھی یا نہیں ؟ غالباً تجھے تو اللہ نہ نکالے گا اس لیے کہ تو اس کا منکر ہے ۔ یہ سن کر نافع کھسیانا ہو کر ہنس دیا ۔ یہ نافع خارجی تھا اس کی کنیت ابو راشد تھی ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے سمجھاتے ہوئے آیت «وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَہَنَّمَ وِرْدًا» ۱؎ (19-مریم:86) بھی پڑھی تھی ۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ پہلے بزرگ لوگوں کی ایک دعا یہ بھی تھی کہ « اللہُمَّ أَخْرِجْنِی مِنْ النَّار سَالِمًا وَأَدْخِلْنِی الْجَنَّۃ غَانِمًا» اے اللہ مجھے جہنم سے صحیح سالم نکال لے اور جنت میں ہنسی خوشی پہنچا دے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد طیالسی میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کے مخاطب کفار ہیں ۔ عکرمہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ، یہ ظالم لوگ ہیں ، اسی طرح ہم اس آیت کو پڑھتے تھے ۔ یہ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نیک بد سب وارد ہوں گے ۔ دیکھو فرعون اور اس کی قوم کے لیے اور گہنگاروں کے لیے بھی «ورود» کا لفظ دخول کے معنی میں خود قرآن کریم کی دو آیتوں میں وارد ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { وارد تو سب ہوں گے ، پھر گزر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3159،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” پل صراط سے سب کو گزرنا ہوگا ۔ یہی آگ کے پاس کھڑا ہونا ہے ۔ اب بعض تو بجلی کی طرح گزر جائیں گے ، بعض ہوا کی طرح ، بعض پرندوں کی طرح ، بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، بعض تیز رفتار اونٹوں کی طرح ، بعض تیز چال والے پیدل انسان کی طرح ۔ یہاں تک کہ سب سے آخر جو مسلمان اس سے پار ہوگا ، یہ وہ ہوگا جس کے صرف پیر کے انگوٹھے پر نور ہوگا ، گرتا پڑتا نجات پائے گا ۔ پل صراط پھسلنی چیز ہے جس پر ببول جیسے اور گو گھرو جیسے کانٹے ہیں ، دونوں طرف فرشتوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں جہنم کے اٹکس ہوں گے جن سے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے الخ ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا ۔ پہلا گروہ تو بجلی کی طرح آن کی آن میں پار ہو جائے گا ، دوسرا گروہ ہوا کی طرح جائے گا ، تیسرا تیز رفتار گھوڑوں کی طرح ، چوتھا تیز رفتار جانور کی طرح ۔ فرشتے ہر طرف سے دعائیں کر رہے ہونگے کہ اے اللہ سلامت رکھ الٰہی بچا لے ۔ بخاری و مسلم کی بہت سی مرفوع احادیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ کعب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جہنم اپنی پیٹھ پر تمام لوگوں کو جما لے گی ۔ جب سب نیک و بد جمع ہو جائیں گے تو حکم باری ہو گا کہ اپنے والوں کو تو پکڑ لے اور جنتیوں کو چھوڑ دے ۔ اب جہنم سب برے لوگوں کا نوالہ کر جائے گی ۔ وہ برے لوگوں کو اس طرح جانتی پہچانتی ہے جس طرح تم اپنی اولاد کو بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ مومن صاف بچ جائیں گے ۔ سنو جہنم کے داروغوں کے قد ایک سو سال کی راہ کے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس گرز ہیں ایک مارتے ہیں تو سات لاکھ آدمیوں کا چورا ہو جاتا ہے ۔ مسند میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے اپنے رب کی ذات پاک سے امید ہے کہ بدر اور حدیبیہ کے جہاد میں جو ایماندار شریک تھے ان میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا } ۔ یہ سن کر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، یہ کیسے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد کی دوسری آیت پڑھ دی کہ ’ متقی لوگ اس سے نجات پا جائیں گے اور ظالم لوگ اسی میں رہ جائیں گے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2496) بخاری و مسلم میں ہے کہ { جس کے تین بچے فوت ہو گئے ہوں ، اسے آگ نہ چھوئے گی مگر صرف قسم پوری ہونے کے طور پر } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6656) اس سے مراد یہی آیت ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بخار چڑھا ہوا تھا جس کی عیادت کے لیے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تشریف لے چلے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { جناب باری عزوجل کا فرمان ہے کہ یہ بخار بھی ایک آگ ہے ۔ میں اپنے مومن بندوں کو اس میں اس لیے مبتلا کرتا ہوں کہ یہ جہنم کی آگ کا بدلہ ہو جائے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23851:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے بھی یہی فرما کر پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جو شخص سورۃ «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ» ۱؎ (112-الإخلاص:1-4) دس مرتبہ پڑھ لے ، اس کے لیے جنت میں ایک محل تعمیر ہوتا ہے } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر تو ہم بہت سے محل بنا لیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا { اللہ کے پاس کوئی کمی نہیں وہ بہتر سے بہتر اور بہت سے بہت دینے والا ہے ۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھ لے ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں میں لکھ لیں گے ۔ فی الواقع ان کا ساتھ بہترین ساتھیوں کا ساتھ ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:859:حسن) { اور جو شخص کسی تنخواہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی خوشی کے لیے مسلمان لشکروں کی ان کی پشت کی طرف سے حفاظت کرنے کے لیے پہرہ دے ، وہ اپنی آنکھ سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری کرنے کے لیے ، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے ۔ اللہ کی راہ میں اس کا ذکر کرنا ، خرچ کرنے سے بھی سات سو گنا زیادہ اجر رکھتا ہے اور روایت میں ہے سات ہزار گنا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/3:ضعیف) ابوداؤد میں ہے کہ { نماز ، روزہ اور ذکر اللہ ، اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا درجہ رکھتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2498،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس آیت سے گزرنا ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان تو پل صراط سے گزر جائیں گے اور مشرک جہنم میں جائیں گے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس دن بہت سے مرد و عورت اس پر سے پھسل جائیں گے ۔ اس کے دونوں کنارے فرشتوں کی صف بندی ہوگی جو اللہ سے سلامتی کی دعائیں کر رہے ہونگے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23849:) یہ تو اللہ کی قسم ہے جو پوری ہو کر رہے گی ۔ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ اسے اپنے ذمے لازم کر چکا ہے ۔ پل صراط پر جانے کے بعد پرہیزگار تو پار ہو جائیں گے ، ہاں گنہگار اپنے اپنے اعمال کے مطابق نجات پائیں گے ۔ جیسے عمل ہوں گے اتنی دیر وہاں لگ جائے گی ۔ پھر نجات یافتہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے ۔ ملائکہ شفاعت کریں گے اور انبیاء علیہم السلام بھی ۔ پھر بہت سے لوگ تو جہنم میں سے اس حالت میں نکلیں گے کہ آگ انہیں کھا چکی ہو گی مگر چہرے کی سجدہ کی جگہ بچی ہوئی ہوگی ۔ پھر اپنے اپنے باقی ایمان کے حساب سے دوزخ سے نکالے جائیں گے ۔ جن کے دلوں میں بقدر دینار کے ایمان ہو گا ، وہ اول نکلیں گے ، پھر اس سے کم والے ، پھر اس سے کم والے یہاں تک کہ رائی کے دانے کے برابر ایمان والے ، پھر اس سے کم والے ، پھر اس سے بھی کمی والے ، پھر وہ جس نے اپنی پوری عمر میں «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کہہ دیا ہو گو کچھ بھی نیکی نہ کی ہو ۔ پھر تو جہنم میں وہی رہ جائیں گے جن پر ہمیشہ اور دوام لکھا جا چکا ہے ۔ یہ تمام خلاصہ ہے ان احادیث کا جو صحت کے ساتھ آ چکی ہیں ۔ پس پل صراط پر جانے کے بعد نیک لوگ پار ہو جائیں گے اور بد لوگ کٹ کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے ۔