سورة الكهف - آیت 77

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچ گئے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان کی مہمانوازی سے انکار کردیا۔ وہاں حضرت خضر اور موسیٰ نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی انہوں نے اس دیوار کو ٹھیک کردیا موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔“ (٧٧)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ایک اور انوکھی بات دو دفعہ کے اس واقعہ کے بعد پھر دونوں صاحب مل کر چلے اور ایک بستی میں پہنچے ۔ مروی ہے وہ بستی ایک تھی یہاں کے لوگ بڑے ہی بخیل تھے ۔ (صحیح مسلم:2380) انتہا یہ کہ دو بھوکے مسافروں کے طلب کرنے پر انہوں نے روٹی کھلانے سے بھی صاف انکار کر دیا ۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنا ہی چاہتی ہے ، جگہ چھوڑ چکی ہے ، جھک پڑی ہے ۔ دیوار کی طرف ارادے کی اسناد بطور استعارہ کے ہے ۔ اسے دیکھتے ہی یہ کمر کس کر لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مضبوط کر دیا اور بالکل درست کر دیا ۔ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا دیا ۔ خم ٹھیک ہو گیا اور دیوار درست بن گئی ۔ اس وقت پھر کلیم اللہ علیہ السلام بول اٹھے کہ سبحان اللہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانے تک کو نہ پوچھا بلکہ مانگنے پر بھاگ گئے ۔ اب جو تم نے ان کی یہ مزدوری کر دی ، اس پر کچھ اجرت کیوں نہ لے لی جو بالکل ہمارا حق تھا ؟ اس وقت وہ بندہ الٰہی بول اٹھے ! لو صاحب اب مجھ میں اور آپ میں حسب معاہدہ خود جدائی ہو گئی ۔ کیونکہ بچے کے قتل پر آپ نے سوال کیا تھا اس وقت جب میں نے آپ کو اس غلطی پر متنبہ کیا تھا تو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اب اگر کسی بات کو پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ سے الگ کر دینا ۔ اب سنو ! جن باتوں پر آپ نے تعجب سے سوال کیا اور برداشت نہ کر سکے ، ان کی اصلی حکمت آپ پر ظاہر کئے دیتا ہوں ۔