سورة یوسف - آیت 35

ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر اس کے بعد کہ وہ کئی نشانیاں دیکھ چکے ان کے سامنے یہ بات آئی کہ اسے ایک وقت تک ضرور قید کردیں۔“ (٣٥)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جیل خانہ اور یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا راز سب پر کھل گیا ۔ لیکن تاہم ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ کچھ مدت تک یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ میں رکھیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں ان سب نے یہ مصلحت سوچی ہو کہ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عزیز کی بیوی اس کی چاہت میں مبتلا ہے ۔ جب ہم یوسف علیہ السلام کو قید کر دیں گے وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ قصور اسی کا تھا اسی نے کوئی ایسی نگاہ کی ہو گی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ مصر نے آپ کو قید خانے سے آزاد کرنے کے لیے اپنے پاس بلوایا تو آپ نے وہیں سے فرمایا کہ میں نہ نکلوں گا جب تک میری براءت اور میری پاکدامنی صاف طور پر ظاہر نہ ہو جائے اور آپ حضرات اس کی پوری تحقیق نہ کر لیں جب تک بادشاہ نے ہر طرح کے گواہ سے بلکہ خود عزیز کی بیوی سے پوری تحقیق نہ کر لی اور آپ کا بے قصور ہونا ، ساری دنیا پر کھل نہ گیا آپ جیل خانے سے باہر نہ نکلے ۔ پھر آپ باہر آئے جب کہ ایک دل بھی ایسا نہ تھا جس میں صدیق اکبر ، نبی اللہ ، پاکدامن اور معصوم اللہ کے رسول یوسف علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے ذرا بھی بدگمانی ہو ۔ قید کرنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عزیز کی بیوی کی رسوائی نہ ہو ۔