سورة البقرة - آیت 151

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اسی طرح ہم نے تمہارے درمیان تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیات تمہارے سامنے پڑھتا اور تمہیں پاک کرتا ہے، تمہیں کتاب و حکمت اور وہ کچھ سکھلاتا ہے جس سے تم بے علم تھے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ کی یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے! یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا ، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن و حدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھا جنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے ، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے ۔ دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت «لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِھٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ( 3 ۔ آل عمران : 164 ) یعنی ایسے اولوالعزم پیغمبر کی بعثت مومنوں پر اللہ کا ایک زبردست احسان ہے اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے آیت «أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ( 14 ۔ ابراہیم : 28 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کے بدلے کفر کیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا یہاں اللہ کی نعمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی لیے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو ۔ موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی ، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی یاد کرتا ہے ؟ فرمایا ہاں برائی سے ، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا ، حضرت سعید بن جیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے جو تجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری:7405) مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے ۔ (عبدالرزاق:20575صحیح) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو اور جگہ ہے آیت «لَیِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَیِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 7 ) یعنی تیرے رب کی طرف سے عام آگہی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں برکت دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا میرا عذاب سخت ہے ، مسند احمد میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے ۔ (مسند احمد:438/4:صحیح)