سورة ھود - آیت 69

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور تحقیق ہمارے بھیجے ہوئے ملائکہ ابر اہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کیا۔ اس نے کہا سلام ہو پھر دیر نہ کی کہ اور بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔“ (٦٩) ”

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ابراہیم علیہ السلام کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور ابراہیم علیہ السلام کے ہاں فرزند ہونے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ وہ آ کر سلام کرتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں ۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے ۔ سلام کے بعد ہی ابراہیم علیہ السلام ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں ۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا ، لاتے ہیں ۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں ، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہو گئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے ۔ ابراہیم علیہ السلام کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی ، «فَرَاغَ إِلَیٰ أَہْلِہِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِینٍ فَقَرَّبَہُ إِلَیْہِمْ قَالَ أَلَا تَأْکُلُونَ» ۱؎ (51-الذاریات:26،27) ’ جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے ‘ ، آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں ۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے ۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم علیہ السلام ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئیے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے ، آپ علیہ السلام نے فرمایا ” «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر «اَلْحَمْدُ لِلہِ» کہنا یہی اس کی قیمت ہے “ ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے میکائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ ” فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بنائے “ ۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ علیہ السلام کے دل میں طرح طرح کے خیالات گزرنے لگے ۔ سارہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ خود ابراہیم علیہ السلام ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں ، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بے ساختہ ہنسی آگئی ۔ ابراہیم علیہ السلام کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا ” آپ علیہ السلام خوف نہ کیجئے “ ۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ” ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں “ ۔ سارہ رضی اللہ عنہا کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کر دیا ۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا ۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے ، وہ پوری غفلت میں ہے ۔ الغرض فرشتوں نے آپ علیہ السلام کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی ۔ اور پھر اسحاق علیہ السلام کے ہاں یعقوب علیہ السلام کے ہونے کی بھی ساتھ ہی خوشخبری سنائی ۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ کیونکہ اسحاق علیہ السلام کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہونے کی بشارت دی گئی تھی ۔ یہ سن کر سارہ علیہ السلام نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا ” امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے ۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے ، اے نبی علیہ السلام کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں ، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے ۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے “ ۔