سورة المآئدہ - آیت 111

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہیں کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں۔ (١١١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 111 سے115) ربط کلام : قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی یاد کرایا جاۓ گا۔ اس فرمان کا پس منظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودیوں کی سازشوں اور پروپیگنڈہ کی بنا پر کوئی شخص بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر خاص کرم فرماتے ہوئے کچھ لوگوں کے دل ہدایت کے لیے کھول دیے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ﴿اَوْحَیْتُ﴾ کے الفاظ استعمال فرماۓ کہ اے عیسیٰ ! اللہ ہی نے تمھارے حواریوں کے دل میں القا کیا کہ آگے بڑھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤاور اس کے دست وبازو بن جاؤ۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت ہے۔ ﴿یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا أَنْصَار اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ أَنصَارِیْٓ إِلٰی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَار اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْ بَنِی إِسْرَائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ فَأَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَأَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ﴾[ الصف :14] ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ۔ جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا کون مددگار ہے؟ تو حوا ریوں نے کہا تھا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیا ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی لہٰذا وہی غالب رہے۔“ حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان تو کردیا لیکن ساتھ ہی نہا یت ادب کے ساتھ ملتمس ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کیا یہ ممکن ہے آپ کا رب آسمان سے ہمارے لیے کھانوں سے بھر پور دستر خوان نازل کرے؟﴿ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ﴾ کے معنی یہ نہیں کہ انہیں شک تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے دستر خوان نازل نہیں کرسکتا۔ یقیناً وہ جانتے تھے کہ جو رب من وسلوی اور بارش نازل کرسکتا ہے وہ پکا پکایا کھانا بھی نازل کرسکتا ہے۔ کیا آپ کا رب طاقت رکھتا ہے؟ کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور اس کی حکمت کے منافی نہ ہو تو وہ ہم پر دسترخوان نازل فرمائے تاکہ ہم یہ فوائد حاصل کرسکیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ پکوان کو خوب مزے لے لے کر سیر ہو کر کھائیں۔ 2۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے پرندوں کا معجزہ ظاہر ہوا اور وہ اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال ہوئے ہم بھی دستر خوان سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ قلبی اطمینان چاہتے ہیں۔ 3۔ اس اطمینان قلب اور انشراح صدر کے بعد ہم لوگوں کے سامنے شدّو مدّاور بھرپور طریقہ کے ساتھ آپ کی نبوت کا پر چار کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم پر اپنی نعمتوں سے بھر پور دستر خوان نازل کروں گا لیکن یاد رکھنا اس کے بعد جس کسی نے انکار کیا تو اسے ایسے عذاب سے دوچار کیا جائے گا کہ جس کی مثال دنیا میں پہلے نہ ہوگی۔ دستر خوان کے نزول کے بارے میں مفسرین کی دو آرا پائی جاتی ہیں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ دستر خوان نازل ہوا جب کہ دوسرے فریق کا خیال ہے کہ عذاب کی وارننگ سن کر حواریوں نے اس مطالبہ سے توبہ کرلی تھی۔ (واللہ اعلم) مسائل : 1۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی کھانے کی دعا کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی آیات نازل ہونے پر اتمام حجت ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : 1۔ اللہ ہی سب کو رزق دینے والا ہے : (المائدہ:114) 2۔ اے اللہ ہمیں رزق عطا فرما تو ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ ( المائدہ :114)