سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کروگے جب قرآن نازل کیا جارہا ہے تو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اور اللہ خوب بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔ (١٠١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 101 سے 102) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جب رسول (ﷺ) اپنی ذمہ داری کما حقہ نبھاتے ہوئے اچھائی اور برائی میں فرق واضح کر رہے ہیں تو تمہیں بے وجہ سوال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ادب کے منا فی ہونے کے ساتھ تمہارے لیے مشکل کا با عث ہوگا۔ نزول قرآن کے وقت سوال کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تھا کہ جب رسول اکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نا زل کردہ وحی من وعن لوگوں تک پہنچا رہے ہیں جس میں حلال وحرام، خبیث اور طیّب، جائز اور نا جائز کے درمیان پوری طرح فرق کیا جارہا ہے تو پھر خواہ مخواہ بال کی کھال اتارنا جائز نہیں۔ اس میں ایک طرف گستاخی کا پہلو نکلتا ہے اور دوسری طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ جب میں کوئی مسئلہ بیان کروں تو اسے سنو اور اس پر حتی المقدور عمل کرو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کوئی بات کرتے ہوئے بھولتا نہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ خَطَبَنَا وَقَالَ مَرَّۃً خَطَبَ رَسُول اللّٰہِ () فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْفَرَضَ عَلَیْکُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُول اللّٰہِ فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَہَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ () لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُونِی مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلٰی أَنْبِیَاءِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوہُ)[ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ رسول معظم (ﷺ) نے خطبہ ارشاد فرما تے ہوئے فرمایا اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو تم حج کرو۔ ایک شخص نے کہا اے رسول مکرم ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ (ﷺ) خاموش ہوگئے یہاں تک کہ اس شخص نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر حج واجب ہوجا تا اگرچہ تم میں سے اس کی کوئی طا قت نہ رکھتا۔ پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا جن معاملات کے متعلق میں نے تم کو چھوڑ دیا ہے تم بھی اس کے بارے میں مجھے چھوڑ دو بلاشبہ تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور انبیاء کے بارے میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تم کو کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کو پورا کرو اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس کو چھوڑ دو۔“ بے مقصد سوال کرنے والا مجرم ہے : (عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِینَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَیْءٍ لَمْ یُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِہِ ) [ رواہ البخا ری : باب مَا یُکْرَہُ مِنْ کَثْرَۃِ السُّؤَالِ وَتَکَلُّفِ مَا لاَ یَعْنِیہِ] ” سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جس کو لوگوں پر حرام قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اس کے سوال کی وجہ سے اس چیز کو حرام قرار دے دیا گیا۔“ مسائل : 1۔ خواہ مخواہ مسئلہ سے مسئلہ نہیں نکالنا چاہیے۔ 2۔ بے مقصد سوال نہیں کرنے چاہییں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت بردبار ہے۔ 4۔ جن لوگوں نے بے مقصد سوال کرنے کا وطیرہ اختیار کیا وہ پریشان ہوئے۔ 5۔ بے مقصد سوالات اٹھانے والوں کی اکثریت گمراہ ہوجاتی ہے۔