سورة ق - آیت 24

أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

حکم ہوگا ہر کافر سرکش کو جو حق سے عناد رکھتا تھا اسے جہنم میں پھینک دو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت24سے26) ربط کلام : جو شخص تابعدار نہ بنا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے فرامین اور اس کی قدرت کی نشانیوں کو بصیرت کی آنکھ سے نہ دیکھا اور اپنے اعمال کی درستگی نہ کی اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے حضور ہر شخص کو اس کے اعمال نامے کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ مجرم اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے اس پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے لیکن مجرم نہ صرف اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے بلکہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی گواہی کو بھی مسترد کردیں گے۔ جس پر حکم ہوگا کہ ان کے مونہوں پر مہریں ثبت کردی جائیں۔ اس کے بعد ان کے اعضاء کو بولنے کا حکم ہوگا۔ (یٰس :65) مجرموں کے اعضاء اللہ کے حضور ان کے خلاف گو اہی دیں گے۔ (حمٓ السجدۃ: 20تا22) تب حکم ہوگا کہ ہر ناشکرے اور نافرمان کو جہنم میں پھینک دیاجائے۔ جو مال میں بخل کرنے والا، حد سے بڑھنے والا اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑنے والا تھا۔ اس نے اللہ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لیے تھے۔ ان جرائم کی وجہ سے انہیں شدید عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔ اس مقام پر جہنمیوں کے چھ جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کَفَّار : اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین کی سمجھ ہے۔ دین کی بنیاد توحید پر قائم ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں توحید کو تسلیم نہیں کرتا وہ پرلے درجے کا ناشکرا ہے، اس کی سزا جہنم ہوگی۔ عَنِیْد ” نافرمان“: اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا شخص نافرمان ہوتا ہے۔ ہر نافرمان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ: خیر سے مراد مال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال داروں پر غریبوں کے کچھ حقوق رکھے ہیں، جو مال دار غریبوں کا حق بالخصوص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ بھی جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ مُعْتَدٍ: مُعْتَدٍ“ کا معنٰی ہے ظلم کرنے والا، حق چھپانے والا اور حد سے بڑھ جانے والا۔ (المنجد) اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ حدود و قیود کا پابند کیا ہے۔ جو شخص ان حدود و قیود کی پرواہ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی حدود توڑنے اور پھلانگنے والا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی حدود توڑے گا وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ظلم سے مراد شرک بھی ہے اور عام زیادتی بھی۔ مُرِیْبٍ: مُرِیْبٍ“ کا معنٰی ہے شک کرنے والا، بدگمانی کرنے والا، تہمت لگانے والا، شک میں ڈالنے والا۔ ( المنجد) جو دین کے بارے میں شک کرنے والا ہوگا اسے بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ 6۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا : جو شخص اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے حکم میں دوسروں کو شریک کرتا ہے وہ مشرک ہوتا ہے۔ اگر شرک کرنے والا توبہ کیے بغیر مرجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے شدید ترین عذاب میں ڈالا جائے گا۔ مسائل: 1۔ جس شخص میں مندرجہ بالا جرائم ہوں گے وہ جہنم کے شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: جہنم میں داخل ہونے والوں کے بڑے بڑے جرائم : 1۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ:39) 2۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن :76) 3۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبہ :68) 4۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء :116) 5۔ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا لٰہ نہ بنانا وگرنہ دھتکار کر جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل :39)