سورة غافر - آیت 29

يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے میری قوم کے لوگو ! آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور ملک میں تم غالب ہو۔ اگر اللہ کا عذاب ہم پر آیا تو پھر کون ہماری مدد کرسکے گا، فرعون نے کہا میں تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت29سے33) ربط کلام : مرد مومن کے خطاب کے جواب میں فرعون کا جواب۔ مرد مومن نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے قوم کو یہ کہہ کر مزید احساس دلایا کہ آج ملک پر تمہاری بادشاہی ہے اور تم مملکت مصر پر برسراقتدار ہو۔ لیکن یاد رکھو ! اگر ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو بتاؤ ہمیں کون اس کے عذاب سے بچائے گا؟ مرد مومن نے اس قدر مؤثر اور جاندار انداز میں فرعون اور اپنی قوم کے نمائندوں کو خطاب کیا کہ جو فرعون توحیدکی بات سننا گوارا نہیں کرتا تھا۔ وہ مرد مومن کے جواب میں صرف اتنی بات کہہ سکا کہ میں تو تمہیں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو کچھ میں دیکھتا اور سمجھتا ہوں۔ میرے خیال کے مطابق اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ فرعون کی بات سن کر مرد مومن چونک اٹھا اور اس نے اپنی قوم کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس بات سے ڈرارہا ہوں کہ کہیں تم پر ایسے حالات وارد نہ ہوجائیں جو پہلے لوگوں پر وارد ہوئے تھے۔ جس طرح قوم نوح (علیہ السلام) قوم ثمود، قوم عاد اور ان کے بعد کچھ قوموں پر نازل ہوئے۔ اے میری قوم کے لوگو! اگر ایسا ہوا تو یاد رکھنا کہ یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ اے میری قوم! مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ اس دن تم ایک دوسرے کو آواز پے آواز دو گے لیکن تمہاری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا تمہیں کوئی پناہ نہیں دے سکے گا۔ یاد رکھو! جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اس دن سے مراد کچھ بزرگوں نے عذاب کا دن لیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عذاب کے دن کے بارے میں مردِمومن نے قوم نوح (علیہ السلام)، قوم عاد، قوم ثمود اور دیگراقوام کا حوالہ دے کر ڈرایا ہے۔ اس لیے ” یَوْمَ التَّنَادِ“ سے مراد قیامت کا دن ہے جس دن لوگ ” اللہ“ کے عذاب سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو دوہائی دیں گے۔“ (عبس : 34تا37) (المعارج : 10تا18) ” کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔ ایک دوسرے کو دکھادیئے جائیں گے۔ گناہ گار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور زمین کی ہر چیز کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دلا دے۔ ہرگز یہ نہ ہوگا۔ یقیناً وہ شعلہ والی آگ ہے جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لینے والی ہے وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے اور مال جمع کرکے رکھتا ہے ” مسائل: 1۔ مرد مومن کے جواب میں فرعون کوئی معقول بات نہ کرسکا۔ 2۔ مرد مومن نے اپنی قوم کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔ 3۔ قیامت کے دن مجرم ایک دوسرے کو پکاریں گے لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تفسیربالقرآن: ہدایت صرف ” اللہ“ کے اختیار میں ہے : 1۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 2۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 3۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 4۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 5۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر :3) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص :56) 7۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔ (الحجرات :17) 8۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران :8) 9۔ رسول اکرم (ﷺ) کی تابعداری انسان کی ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور :54) 10۔ صحابہ کرام (رض) کا ایمان ہدایت کی کسوٹی ہے۔ (البقرۃ:137)