سورة الروم - آیت 8

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا انہوں نے اپنے آپ پر غور نہیں کیا اور یہ نہیں سوچا کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں با مقصد اور ایک مقرر مدّت کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے انکاری ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت8سے10) ربط کلام : انسان کی غفلت کا ایک سبب اسے دنیا میں ملنے والی مہلت ہے جس کی طرف انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اسے اپنے انجام کا خیال رکھنا چاہیے۔ انسان دنیا کی سہولیات اور زیب وزینت پر فریفتہ ہو کر آخرت کے احتساب کو بھول جاتا ہے۔ خاص طور پر کافر اور مشرک کی جب دنیا میں گرفت نہیں ہوتی تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ شائد مرنے کے بعد بھی مجھے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کو بالخصوص ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! اپنے آپ اور زمین آسمان اور جو کچھ ان میں موجود ہے اس پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اور کیونکر پیدا کیا ہے۔ اس نے کوئی چیز بھی بے فائدہ پیدا نہیں کی بلکہ ہر چیز کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے اور وہ اپنے مقصد کو پورا کر رہی ہے۔ اس نے ہر چیز کی بقاء اور فنا کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اس میں انسان بھی شامل ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد زمین میں خلافت کی ذمہ داری پوری کرنا اور اپنے رب کی بندگی کرنا ہے۔ جس کی تشریح نزول آدم کے وقت کردی گئی تھی کہ اے آدم زمین پراُترجاؤ۔ ایک مدّت تک تمہارا وہاں رہنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ یاد رکھو کہ اپنے رب کی راہنمائی کے مطابق زندگی گزارو گے کہ تو دنیا اور آخرت میں اجر پاؤ گے اگر نافرمانی کا راستہ اختیار کرو گے تو سزا سے دوچار ہو گے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے انسان کو ایک مہلت دی گئی ہے مگر اس کے باوجود انسان اپنے خالق کو بھول جاتا ہے ایسے انسانوں کی ہر دور میں اکثریت رہی ہے، جن میں مکہ کے مشرک سرفہرست تھے، اس لیے انہیں براہ راست کہا گیا کہ کیا انہوں نے دنیا کی تاریخ پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان سے پہلے کتنے لوگ گزر چکے ہیں جو طاقت اور عمر کے حوالے سے ان سے بڑھ کر تھے اور انہوں نے ان سے زیادہ زمین پر ترقی کی اور اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان کے پاس واضح دلائل اور کھلے معجزات کے ساتھ رسول بھیجے گئے لیکن انہوں نے اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا اور انبیاء کی اطاعت کرنے کی بجائے ظلم اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ کیونکہ یہ لوگ خود ہی اپنے آپ ظلم کرنے والے تھے، ظلم سے مراد شرک ہے اور آپس کے مظالم بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، انہوں نے ” اللہ“ کی آیات کو جھٹلایا اور مذاق کیا جس کے نتیجہ میں برا انجام پایا۔ ان کی غفلت کا بنیادی سبب دنیا کے وسائل پر اترانا اور آخرت کی جوابدہی کو بھول جانا تھا۔ ظلم کا انجام : (أَنَّ زِیَاداً مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ حَدَّثَہُمْ عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنِ النَّبِیِّ () أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ رَسُول اللَّہِ () جَلَسَ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ لِی مَمْلُوکِیْنِ یُکَذِّبُونَنِی وَیَخُونُونَنِی وَیَعْصُونَنِی وَأَضْرِبُہُمْ وَأَسُبُّہُمْ فَکَیْفَ أَنَا مِنْہُمْ فَقَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ () بِحَسْبِ مَا خَانُوکَ وَعَصَوْکَ وَیُکَذِّبُونَکَ فإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ دُونَ ذُنُوبِہِمْ کَانَ فَضْلاً لَکَ عَلَیْہِمْ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِہِمْ کَانَ کَفَافاً لاَ لَکَ وَلاَ عَلَیْکَ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ فَوْقَ ذُنُوبِہِمُ اُقْتُصَّ لَہُمْ مِنْکَ الْفَضْلُ الَّذِی بَقِیَ قِبَلَکَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَبْکِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُول اللَّہِ () وَیَہْتِفُ فَقَالَ رَسُول اللَّہ () مَا لَہُ مَا یَقْرَأُ کِتَاب اللَّہِ ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً وَإِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَی بِنَا حَاسِبِینَ﴾ فَقَال الرَّجُلُ یَا رَسُول اللَّہِ مَا أَجِدُ شَیْئاً خَیْراً مِنْ فِرَاقِ ہَؤُلاَءِ یَعْنِی عَبِیدَہُ إِنِّی أُشْہِدُکَ أَنَّہُمْ أَحْرَارٌ کُلُّہُمْ)[ رواہ احمد : مسند السیدۃ عائشۃ] ” عبداللہ (رض) بن عیاش بن ابی ربیعہ کے غلام زیاد نے انہیں حدیث بیان کی اس آدمی سے جس نے اسے نبی (ﷺ) سے بیان کیا تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ میں سے ایک آدمی آپ کے سامنے عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میرے دو غلام ہیں جو میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں میں انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور گالیاں دیتا ہوں میرا یہ معاملہ کیسا ہے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس قدر تیری خیانت، تیری نافرمانی اور تیرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر تیری ڈانٹ ڈپٹ ان کے غلطیوں سے کم ہوئی تو تجھے اجر عطا کیا جائے گا اور اگر برابرہوئی تو معاملہ یکساں ہے اور اگر ڈانٹ ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوئی تو تیری نیکیوں میں کمی کی جائے گی یہ سن کر وہ شخص آپ (ﷺ) کے سامنے روتے ہوئے آہ وزاری کرنے لگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کیا اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھتا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا اگر نیکی اور برائی ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ہوئی ہم اسے بھی لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب لینے والے۔ وہ آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا کہ غلاموں کو آزاد کر دوں اور میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے انہیں آزاد کردیا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ () یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَئِذٍ یَا عَائِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ) [ روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ (رض) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (ﷺ) کو بعض نمازوں میں یہ الفاظ پڑہتے ہوئے سنا آپ فرماتے اے بار الٰہا! میرا حساب و کتاب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی اللہ کے پیغمبر حساب یسیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا اور ہر وہ تکلیف جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا چبھنے سے بھی گناہ مٹ جاتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک وقت تک مہلت دی ہے جس سے غلط فائدہ اٹھا کر انسان اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ 3۔ اللہ کے نافرمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ ان سے پہلے کتنے ترقی یافتہ اور طاقت ور لوگ تباہ کر دئیے گئے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ ٥۔ برے لوگوں کا انجام برا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا میں نافرمان طاقتور لوگوں کا انجام : 1۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف :103) 2۔ دیکھیں ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ (یونس :39) 3۔ زمین میں چل کر دیکھیں مجرموں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل :69) 4۔ آپ (ﷺ) دیکھیں جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الزخرف :25) 5۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں کو ہلاک کیا جو طاقت، قوت اور مال کے لحاظ سے مکہ والوں سے بڑھ کرتھے۔ (القصص :78) 6۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان :37) 7۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ :5) 8۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 9۔ جب قوم لوط پر ہمارا عذاب آیا تو ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش کی۔ (ھود :82) 10۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف :136)