سورة القصص - آیت 62

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور قیامت کے دن جب اللہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت62سے64) ربط کلام : آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کے سامنے شرک کی حیثیت واضح کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے ذلیل کرنے کے لیے حکم صادر فرمائے گا کہ میری ذات اور صفات میں شریک کرنے والو ! وہ لوگ کہاں ہیں جن کو تم سفارشی اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر میرے شریک بنایا کرتے تھے ؟ اس وقت حقیقت واضح ہوچکی ہوگی کہ آج ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس لیے مریدوں سے پہلے پیر، عابد سے پہلے معبود پکار اٹھیں گے اے ہمارے رب ! بے شک یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا۔ یہ اسی طرح گمراہ ہوئے جس طرح ہم گمراہ تھے۔ پھر مریدوں کو موقعہ دیا جائے گا کہ بلاؤ اپنی مدد کے لیے جن کو دنیا میں تم مشکل کشا اور سفارشی سمجھتے تھے۔ جب غلط پیروں کو ان کے مریدمدد کے لیے پکاریں گے تو وہ ” اللہ“ کا عذاب دیکھتے ہی اپنی برأت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ یہ صرف ہماری عبادت نہیں کرتیتھے بلکہ جگہ جگہ ٹکریں مارتے پھرتے تھے۔ دنیا میں مشرک کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت کئی مزاروں کے چکر کاٹتا اور دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ مجرم اس بات کا بھی اظہار کریں گے کہ کاش ہم ہدایت یافتہ ہوتے۔ بخاری شریف میں کئی مقامات پر رسول معظم (ﷺ) کا فرمان درج ہے جس میں آپ نے توحید کی برکات کا یوں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ محشر کے میدان میں اعلان فرمائیں گے جو دنیا میں کسی کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پاس چلا جائے۔ مشرک اپنے اپنے پیروں اور معبودوں کے پاس چلے جائیں گے لیکن کچھ لوگ کھڑے رہیں گے۔ جن میں فاسق لوگ بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرمائیں گے کہ تم کیوں نہیں جاتے؟ وہ عرض کریں گے کہ ہم دنیا میں تیرے ساتھ کسی کو مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور آپ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے اب بھی تیری ذات کبریا کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ چنانچہ شرک سے اجتناب کرنے اور توحید کے صلہ میں انہیں معاف کردیا جائے گا۔ [ رواہ البخاری تفسیر سورۃ النساء ] مسائل: 1۔ قیامت کے دن پیروں اور مریدوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ 2۔ غلط پیر مریدوں کے بولنے سے پہلے مریدوں کو گمراہ کرنے کا اعتراف کریں گے۔ 3۔ ” اللہ“ کا عذاب دیکھ کر قیامت کے دن پیر، مرید اپنی گمراہی پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن گمراہ پیروں اور مریدوں کا آپس میں جھگڑنا : 1۔ قیامت کے دن پیر مرید ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت :25) 2۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 3۔ قیامت کے دن گمراہ پیروں اور لیڈروں کے پیچھے لگنے والے کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ (البقرۃ:165) 4۔ کمزور بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ (سبا : 31۔32) 5۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو چھوٹے لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ (المومن :48) 6۔ قیامت کے دن جہنمیوں کا آپس میں جھگڑنا یقینی ہے۔ ( ص :64)