سورة القصص - آیت 57

وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ۚ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

’ وہ کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے امن والے حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنایا ہے۔ جس میں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کے پھل چلے آتے ہیں مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔“ (٥٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت57سے58) ربط کلام : مکہ والوں کا ہدایت قبول نہ کرنے کا عذر لنگ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ اور لخت جگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اس وقت مکہ میں چھوڑا جب بیت اللہ کی بنیادیں تھیں مگر عمارت موجود نہ تھی اور مکہ شہر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور ان الفاظ میں دعا کی۔ ” اے میرے رب میں اپنے اہل وعیال کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑے جا رہا ہوں تاکہ وہ نماز قائم کریں اور اے اللہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ تیرا شکر ادا کریں۔“ [ ابراہیم :37] مکہ والے یہ بہانہ بناتے تھے کہ اگر ہم نے محمد (ﷺ) کے کہنے کہنے پر عقیدہ توحید قبول کرلیا تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمارا روز گار بند ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے اور ان کی زر پرستی کو ضرب لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا انھیں معلوم نہیں ؟ کہ ہم نے کتنی قومیں اور بستیاں تباہ کیں جنھیں اپنے محلات، کاروبار اور دنیا کی ترقی پر بڑا نازتھا۔ جب ہم نے ان پر عذاب نازل کیا تو ان کے گھر اس طرح برباد ہوگئے جیسے یہاں کبھی کوئی آباد نہ ہوا ہو۔ ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی وجہ سے تباہ کیا وہ دنیا کے لحاظ سے بہت ترقی یافتہ تھیں۔ کیونکہ امیر لوگ ہی فیشن اور ترقی کے نام پر ہر قسم کی برائی اور بے حیائی کے موجد ہوتے ہیں۔ اے مکہ والو! جن بستیوں کو ہم نے تباہ کیا وہ تمھاری بستی سے کئی گنا طاقت ور تھیں۔ ﴿وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ﴾[ محمد :13] اور کتنی ہی بستیاں جو اس بستی سے بڑھ کے طاقت ور تھیں ہم نے انہیں ہلاک کردیا ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حرم کو امن و الا بنایا ہے۔ 2۔ ” اللہ“ کے فضل سے دنیا بھر کے پھل مکہ میں چلے آتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حرم کو مکہ والوں کے رزق، امن اور عزت کا ذریعہ بنایا ہے۔ 4۔ نافرمان قوم کو دنیا کی ترقی ” اللہ“ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی نافرمان ترقی یافتہ اقوام کو تباہ برباد کیا۔ 6۔ انسان کو دنیا کی ترقی پر اترانا نہیں چاہیے۔ 7۔ اول آخر ” اللہ“ ہی دنیا کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن: لوگوں کی اکثریت حقیقت کا علم نہیں رکھتی : 1۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام :111) 2۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر :57) 3۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :40) 4۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 5۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم :6)