سورة النمل - آیت 61

أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں دریا چلائے اور اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور دو دریاؤں کے درمیان پردہ حائل کردیا۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٦١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ لوگو! بتاؤ کہ کس نے زمین میں ٹھہراؤ پیدا کیا، اس میں دریا اور نہریں چلائیں، کس نے بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ بنائے اور کس نے دو سمندروں کے درمیان ایک پردہ بنایا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بنانے والا ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے یہ کام نہیں کیے۔ دلائل جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت توحید کے علم سے نابلد ہے۔ سوالات کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین عظیم قدرتوں کا ذکر کیا ہے۔ قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کریں گے اتنے ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شان ربوبیت کے کرشمے آپ کو یہاں نظر آئیں گے۔ انسانی زندگی کی بقا اور نشونما کے لیے زمین میں کس کس خاصیت کا پایا جانا ضروری ہے اور کون کون سی ایسی چیزیں ہیں جو زمین میں موجود نہ ہوں تو انسانی زندگی اپنی رعنائیوں اور مسرتوں سے یکسر خالی ہوجائے، جس سے اب اس کا دامن معمور ہے۔ کون کون سی چیزیں ہیں اگر ان کا سراغ نہ لگایا جائے تو بے پناہ قوّتیں جو زمین کی فطرت میں مضمر ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے کار پڑی رہیں۔ قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں گے معارف ومعانی کا ایک لا متناہی سلسلہ آپ کے سامنے بے نقاب ہوتا چلا جائے گا یہاں نیو یارک سائنس اکیڈمی کے پریذیڈنٹ اے سی موریسن کے مضمون کا مختصر اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ ” زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹ رہی ہے اگر اس کی رفتا ایک ہزار میل کی بجائے ایک سو میل ہوتی تو دن اتنے لمبے ہوتے کہ سورج کی تپش تمام کھیتوں کو بھون کر رکھ دیتی اور راتیں اتنی لمبی اور سرد ہو تیں کہ زندگی کی اگر کچھ رمق سورج کی تپش سے بچ جاتی تو رات کی سردی اسے منجمد کر کے رکھ دیتی۔ سورج کا درجۂ حرارت بارہ ہزار ڈگری فارن ہیٹ ہے لیکن زمین کو اس سے اتنی مناسب دوری پر رکھ دیا گیا ہے کہ وہاں سورج کی حرارت اس قدر ہی پہنچتی ہے جو حیات بخش ہے۔ اگر اٹھارہ ہزار ڈگری ہوتا تو ساری زمین اس کی تمازت سے جل کر راکھ ہوجاتی۔ زمین کا جھکاؤ تیئس درجے کا زاویہ بناتا ہے اور اسی جھکاؤ سے ہمارے موجودہ موسم مناسب وقفوں کے بعد باری باری آتے ہیں۔ اگر اس میں یہ جھکاؤ نہ ہوتا تو سمندر سے اٹھنے والے بخارات جنوب اور شمال میں حرکت کرتے اور اتنی زور سے برف باری ہوتی کہ ساری زمین ڈھک جاتی۔ اگر چاند کی دوری زمین سے اتنی نہ ہوتی جتنی اب ہے بلکہ صرف پچاس ہزار میل ہوتی تو سمندروں میں مدجزر اس شدت سے آتا کہ پہاڑوں تک کو بھی بہا کرلے جاتا۔ اگر زمین کی سطح موجودہ سطح سے صرف دس فٹ زیادہ موٹی ہوتی تو یہاں آکسیجن ہی نہ ہوتی اور کوئی جانور زندہ نہ رہتا اور اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو ساری کاربن ڈائی اکسائیڈ اور آکسیجن صرف ہوجاتی اور روئے زمین پر کوئی سبز پتہ نظر نہ آتا۔ اس حکیمانہ نظام پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کارخانۂ ہستی اتفاقاً معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ ایک حکیم ودانا خالق نے اس کی تخلیق فرمائی ورنہ زندگی کا کوئی امکان نہ تھا۔ (بحوالہ : ضیاء القرآن ) جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی مقامات پر جہاں دریا کا تازہ میٹھا اور (سمندر کا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت ہوا ہے کہ کھاڑیوں (estuaries) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ ”پکنواکلائن زون“ (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جو کھاری اور تازہ پانی کی مختلف پرتوں (Layers) کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔ اس رکاوٹ (یعنی علاقۂ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تناسب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل، بحیرہ روم میں گرتا ہے۔ ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً 6035 کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2کلومیٹر سے لے کر 35کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ یہی بات قرآن پاک میں ارشاد ہوئی : ﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔﴾ [ النباء : 6۔7] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو :Earth از : پریس اور سلور ) ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : ﴿وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ﴾[الانبیاء:31] ” اورهم نے زمین مین پهاڑ جما دیےتاکہ وه انهیں لے كر ڈھلک جائے۔“