سورة آل عمران - آیت 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، مگر یہ کہ ان کے شر سے بچنے کے لیے ایسا کرے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 28 سے 30) ربط کلام : جب عزت وذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو ذاتی مفاد اور دنیوی عزت کی خاطر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ قلبی محبت اور تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ دنیا میں جو لوگ جان بوجھ کر گناہوں سے نہیں بچتے قیامت کے دن خواہش کرنے کے باوجود عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے ابتدائی ایّام تک کئی مسلمان کافروں کو اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ رہنے کے بنیادی اصول سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کفار کو اپنا دلی دوست بنائے اور اسے مومن بھائی سے مقدّم سمجھنے کی کوشش کرے۔ جو ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہ ہوگی کیونکہ عزّت و ذلّت، غربت و دولت اور اختیار واقتدار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ عام طور پر یہی چیزیں ایک غریب آدمی کو امیر کے سامنے دست نگربناتی اور قریب کرتی ہیں۔ جب ہر قسم کی خیر اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو پھر مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ہم عقیدہ بھائی کو چھوڑ کر یا مومن سے زیادہ اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ البتہ وقتی طور پر کسی خوف یا مصلحت کی خاطر دوستی رکھی جاسکتی ہے۔ تفصیل کے لیے سورۃ توبہ رکوع 9 کی تلاوت کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف اپنی ذات سے ڈرنے کا حکم دیتا ہے اور اسی کی طرف تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ تم کوئی چیز چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو، اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے کیونکہ وہ آسمانوں کے چپے چپے اور زمین کے ذرّے ذرّے سے واقف اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس دن جمع کرے گا جس دن ہر کسی کے سامنے اس کے اچھے یا برے کام پیش کیے جائیں گے۔ مجرم اس وقت اس خواہش کا اظہار کرے گا کہ کاش! میرے اور میرے جرائم کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوجائے۔ سورۃ النباء آیت 40میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا﴾ ” کافر کہے گا کاش میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوتا۔“ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ اس کی جلالت سے ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ تم کفار اور اپنے مفاد کے چھن جانے سے نہ ڈروبلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کبریا سے ڈرتے رہو۔ جو اس سے ڈرتے ہیں وہ کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے تابع فرمان بندوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ کافر کو دلی دوست بنانا جائز نہیں۔ 2۔ مصلحت کی خاطر کافر سے عارضی دوستی ہوسکتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے، سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ 4۔ ہم کوئی چیز چھپائیں یا ظاہر کریں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ 5۔ قیامت کے دن ہر آدمی کے سامنے اس کے نیک اور برے اعمال پیش کئے جائیں گے۔ 6۔ مجرم اپنے جرائم سے دور بھاگنے کی تمنا کرے گا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ڈرانے والا اور نیکوں کے ساتھ شفقت کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : کفار سے قلبی دوستی کی اجازت نہیں : 1۔ کافروں سے دوستی کی ممانعت۔ (آل عمران :28) 2۔ کافروں کو خوش کرنے کی ممانعت۔ ( الانعام :150) 3۔ کفار کی پیروی کا نقصان۔ ( آل عمران :149) 4۔ جب تک یہود و نصارٰی کی پیروی نہ کی جائے یہ خوش نہیں ہوتے۔ (البقرہ :120) 5۔ یہود و نصارٰی کی پیروی پر انتباہ۔ (البقرہ :120)