سورة الأنبياء - آیت 98

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بے شک تم اور تمہارے معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں اور تم نے وہاں جانا ہے۔ (٩٨)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 98 سے 100) ربط کلام : آیت 94میں صالح اعمال لوگوں کا اجر بیان ہوا۔ اس کے بعد برے لوگوں کا بیان ہوا۔ برے لوگوں کی برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کی بجائے دوسروں کی عبادت اور تابعداری کرتے تھے قیامت کے دن ایسے عابد اور معبود جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ سب سے بڑی برائی ” اللہ“ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانا اور قیامت کے دن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے کفار اور مشرکن کا معاملہ چکا یا جائے گا۔ رب ذوالجلال مشرکین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج تم اور تمھارے معبود جنہیں تم مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے پکارا کرتے تھے سب کو جہنم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اگر وہ کسی قسم کا اختیار رکھنے والے ہوتے تو آج انھیں اور تمھیں جہنم میں داخل نہ ہونا پڑتا۔ یہاں معبودان باطل کو جہنم کا ایندھن قرار دیا ہے۔ اس سے مراد ہر قسم کے وہ بت ہیں جن کو لوگ خدا کا اوتار سمجھ کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، رکوع اور سجود کرتے، چلہ کشی اور مراقبہ کرتے ہوئے ان کے ذریعے مدد طلب کرتے تھے۔ ایسے معبودوں کو اللہ تعالیٰ ان کے پجاریوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیں گے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کی پرستش ان کی زندگی میں یا ان کے دئیے ہوئے ماحول کی وجہ سے ان کے مزارات پر کی جاتی رہی۔ انھیں ان کے مریدوں اور قبر پرستوں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ جونہی جہنمی جہنم میں داخل ہوں گے وہ اس قدر آہ و زاری، چیخ و پکار اور واویلا کریں گے کہ کوئی کسی کی بات نہیں سن سکے گا۔ البتہ ان بزرگوں اور شخصیات کو جہنم سے محفوظ رکھا جائے گا جو اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک و بدعت سے روکتے رہے۔ لیکن ان کی موت کے بعد لوگوں نے ان کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ نَارُ جَھَنَّمَ لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْر وَ ھُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْھَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ﴾ [ فاطر : 36۔37] ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے اس میں انہیں نہ موت آئے گی اور نہ ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ وہ اس میں چلاَئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ ہم دنیا جو برے اعمال کرتے تھے ان کی بجائے نیک اعمال کریں گے اللہ فرمائے گا کیا ہم نے تمہیں سوچ و بچار کرنے کے لیے عمر نہ دی تھی اور تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے آج تم عذاب کا مزا چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔“ ﴿قَالَ اخْسَؤُا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ﴾ [ المؤمنون :108] اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ جہنم میں ذلیل وخوار ہوتے رہو بس مجھ سے بات نہ کرو۔“ مسائل: 1۔ معبودان باطل کو ان کے پرستش کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ 2۔ مشرک ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ 3۔ جہنمیوں کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: جہنم میں جہنمیوں کی چیخ و پکار اور واویلا : 1۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم :44) 2۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 4۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون :107)