سورة الأنبياء - آیت 21

أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے معبود زمین پر ہیں کہ جو زندہ کرسکتے ہوں؟ (٢١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 21 سے 23) ربط کلام : رب کے نافرمان نہ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بناتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوئے ہیں اور رہیں گے کہ جن کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے معاون اور اس کی خدائی میں حصہ دار ہیں۔ ان میں بعض لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور وہ اس کی خدائی میں شریک ہیں جس بناء پر وہ ان کی عبادت کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ملائکہ اور دوسروں کو معبود بناتے ہیں ان کے عقیدہ کی یہاں تین دلائل کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ 1۔ جنھوں نے ملائکہ اور زمین میں سے کسی کو معبود بنا لیا ہے۔ کیا وہ مشرکوں کے مرنے کے بعد انہیں اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ! 2۔ اگر زمین و آسمان میں ایک کی بجائے دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور تصادم ہوتا۔ جس سے زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے عقائد اور بے ہودہ باتوں سے مبّرا اور پاک ہے۔ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہے۔ چودھویں پارہ میں اس باطل عقیدہ کی یوں نفی کی گئی ہے کہ ” لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ زمین و آسمان میں دو الٰہ سمجھنے اور بنانے کی بجائے صرف ایک ہی اِلٰہ پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ معبود برحق ایک ہی ہے بس اسی سے ڈرتے رہو۔“ (النحل :51) پندرھویں پارہ میں ارشاد فرمایا۔ ” اے پیغمبر! انھیں سمجھائیں جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہوتا تو دوسرا الٰہ ضرور عرش کی طرف چڑھ دوڑتا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی باتوں سے مبرا، پاک اور بلند و بالا ہے۔“ (بنی اسرائیل : 42۔43) سورۃ المومنون آیت : 91میں اس طرح ارشاد ہوا۔ ” اللہ“ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ دوسرا اِلٰہ ہے۔ اگر دوسراِ لٰہ ہوتا تو وہ اپنی مخلوق کو الگ کرنے کی کوشش کرتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔“ 3۔ جہاں تک ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود سمجھنے یا اس کی خدائی میں شریک کرنے کا معاملہ ہے تو ان لوگوں کو اس پر سوچنا چاہیے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی باقی مخلوق کی طرح ایک مخلوق ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے محکوم اور اس کے حضور مسؤل ہیں۔ ان کے ذمّہ جو ڈیوٹی ہوتی ہے اس کے بارے میں ان سے پوچھ گچھ ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے حکم صادر فرماتا ہے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ (وَقَالَ أبُوْ ذَرٍ (رض) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّہِ () یَقُوْلُ مَا الْکُرْسِیُّ فِیْ الْعَرْشِ إِلَّا کَحَلْقَۃِ مِنْ حَدِیْدٍ ألْقِیَتْ بَیْنَ ظَہْرِیْ فُلَاۃٍ مِنْ الْاأرْضِ) [ تفسیر طبری] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کرسی عرش کے مقابلے میں ایک لوہے کی انگوٹھی کی طرح ہے جو چٹیل میدان میں پڑی ہوئی ہو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ 2۔ اگر دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور اختلاف پیدا ہوتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطل عقیدہ سے بلند اور ان کی بے ہودہ باتوں سے پاک ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہر کوئی مسؤل ہے اور ” اللہ“ سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن: ایک سے زیادہ معبود ہونے کی بجائے صرف ایک ہی الٰہِ حق ہے : 1۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔163) 2۔ یقیناً اللہ ہی اکیلا الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔171) 3۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ:73) 4۔ اللہ کا فرمان ہے کہ دو الٰہ نہ بناؤ کیونکہ الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل :51)