سورة طه - آیت 130

فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پس اے نبی جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔ سورج نکلنے سے پہلے اور غروب سے قبل اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں میں بھی تاکہ تم راضی ہوجاؤ۔“ (١٣٠)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مخالفین کے عذاب کے مطالبہ پر رسول محترم (ﷺ) کو نماز پڑھنے اور صبر کرنے کی تلقین۔ قرآن مجید کی تلاوت اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ رسول کریم (ﷺ) بے انتہا جانفشانی، خلوص اور پر سوز طریقے کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ لیکن مخالفین کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ کی پرخلوص کوششوں کا بدتر سے بدترین جواب دیتے۔ یہاں تک کہ وہ آپ سے بار بار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے۔ اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ انسان ہونے کے ناطے سے آپ (ﷺ) کو اس صورت حال سے رنج پہنچتا جس سے آپ دل گرفتہ ہوجاتے۔ ان حالات میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوتا کہ اے محبوب ! ہمت ہارنے اور دل چھوٹا کرنے کی بجائے صبر و حوصلہ سے کام لیں۔ دل کے سکون اور اپنے رب کی مدد کے حصول کے لیے نماز پڑھتے رہیں۔ کیونکہ نماز پڑھنے اور صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے۔ بالخصوص سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے کے وقت، رات کی ابتداء اور دن کے اطراف کے وقت اللہ کی یاد کے لیے نماز قائم کیجیے تاکہ آپ خوش ہوجائیں۔ خوش ہونے سے مرادطبیعت کا سکون اور دل کا اطمینان حاصل ہونا ہے اس کے ساتھ ہی آپ کو تابناک مستقبل کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ سورۃ والضحیٰ میں آفتاب کی روشنی اور رات کی تاریکی کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اے پیغمبر آپ کے رب نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا ہے۔ آپ کی آخرت دنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر ہے وہ آپ کو دنیا اور آخرت میں اس قدر عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ (الضحیٰ: 1تا7) یہاں تہجد اور اشراق کی نماز کے اوقات کے ساتھ پنجگانہ فرض نماز کے اوقات کا تعین کردیا گیا ہے۔ اوقات نماز : صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے، عصر کی نماز غروب آفتاب سے قبل، عشاء اور مغرب کی نماز رات کی ابتدائی گھڑیوں میں، فجر اور ظہر کی نماز دن کے اطراف میں۔ طَرْفَ کی جمع اَطْرَافَ ہے۔ جس کا معنٰی ہے کسی چیز کا کنارہ۔﴿ اَطْرَاف النَّہَارَ﴾ کا معنی ہے صبح اور دوپہر کا وقت۔ دوپہر کا وقت دن کا کنارہ اس لیے شمار کیا جاتا ہے کہ آفتاب صبح سے لمحہ بہ لمحہ اوپر چڑھتا ہے اور نصف النہار کے بعد اترنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے مراد عصر کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (ﷺ) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ فرماتے ہیں تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجر ابھی نمودارہی ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی اسے پہلے دن سے قدرے مؤخر کیا لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] مسائل: 1۔ دین کے لیے لوگوں کے طعن وتشنیع پر صبر کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ کی رضا مندی کے لیے نماز قائم کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: نماز اور ذکر کے فوائد : 1۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف :170) 2۔ اگر کفار توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ :5) 3۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت :45) 4۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی انہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ :277) 5۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153)