سورة الكهف - آیت 27

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور تلاوت کرو جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے آپ پر کتاب میں وحی کی گئی ہے، اس کے ارشادات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا آپ جائے پناہ پائیں گے۔“ (٢٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ حاکم ہے اور اس کا حکم قرآن مجید کی صورت میں مکمل ہوا، اس لیے اس کے حکم کو جاننے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) پر وحی کے ذریعے قرآن مجید نازل فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتا۔ اس میں ردو بدل اور ترمیم واضافہ کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ رسول اکرم (ﷺ) بھی اس کی زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے احکام حق پر مبنی، حق کے ترجمان اور قیامت تک قائم دائم رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ (الحجر :9) اللہ کے کلام میں تبدیلی نہ ہونے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! لوگ اسے پسند کریں یا نہ کریں آپ نے ہر حال میں انہیں قرآن سنانا ہے۔ دنیا میں یہ واحد کتاب ہے جو شخص ایمان کی حالت میں اس کی تلاوت کرے گا۔ اسے ایک ایک حرف کے بدلے اجروثواب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالأُتْرُجَّۃِ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَرِیحُہَا طَیِّبٌ، وَالْمُؤْمِنُ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالتَّمْرَۃِ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَلاَ رِیْحَ لَہَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَالرَّیْحَانَۃِ، رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ کَالْحَنْظَلَۃِ، طَعْمُہَا مُرٌّ أَوْخَبِیْثٌ وَرِیحُہَا مُرٌّ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن، باب مَنْ رَایَا بِقِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ أَوْ تَأَکَّلَ بِہِ أَوْ فَخَرَ بِہِ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ سنگترے کی طرح ہے اس کا کھانا بھی پاکیزہ ہے اور اس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اس پر عمل کرتا ہے وہ اس کھجور کی طرح ہے۔ اس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے مگر اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا۔ وہ اندرائن کے پھل کی طرح ہے اس کا ذائقہ گندہ ہے اور اس کی بو بھی بڑی ہے۔“ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہُ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لاَ أَقُول الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اسکے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم دوسرا حرف اور لام تیسراحرف ہے۔“ قیامت کے دن حافظ قرآن کا اعزاز : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَ اٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقْرَؤُہَا ) [رواہ ابوداود : باب اسْتِحْبَاب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا حافظ قرآن کو کہا جائے گا قرآن کو پڑھتے جاؤ اور اوپر چڑھتے جاؤ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی آخری آیت کے اختتام پر تیری منزل ہوگی۔“ مسائل: 1۔ کتاب اللہ کی تلاوت کرنی چاہیے۔ 2۔ کتاب اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید کے آداب : 1۔ آپ (ﷺ) پڑھیے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف :27) 2۔ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ (ﷺ) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (بنی اسرائیل :105) 3۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں۔ (المزمل :4) 4۔ جب قرآن پڑھاجائے تو اسے خاموشی سے سنو۔ (الاعراف :204) 5۔ قرآن بڑی شان والا ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ (الواقعۃ: 77تا79) 6۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ:131)