سورة الكهف - آیت 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یا آپ نے خیال کیا کہ غار اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے ؟“ (٩) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 9 سے 12) ربط کلام : اہل مکہ دنیا کی بدولت رسول معظم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا ہے۔ جس میں اہل کفر کو یہ بتلایا ہے کہ اس طرح کا سلوک اصحاب کہف کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بالآخر ان کی دعوت کو شہرت عام اور دوام بخشا۔ اصحاب کہف کے واقعہ میں سب سے بڑی تعجب خیز بات یہ ہے کہ چند نوجوان اپنی جان اور ایمان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ جو انسانی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ایک سو سال تک موت کی آغوش میں رکھا تھا۔ (أَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ أَنّٰی یُحْیِی ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاَئَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ إِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً للنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )[ البقرۃ:259] ” یا اس شخص کی طرح جس کا گزر ایک بستی سے ہوا جو اپنی چھتوں کے بَل گری ہوئی تھی۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ اس کو فنا کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اللہ نے اس کی روح سو سال تک کے لیے قبض کرلی، پھر اس کو اٹھایا اور پوچھا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو۔ اس نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم سو برس ٹھہرے رہے ہو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو، وہ خراب نہیں ہوئیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو تاکہ ہم تمھیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھو ہم انھیں کس طرح جوڑتے اور ان پر گوشت چڑھاتے ہیں جب یہ بات اس کے مشاہدے میں آئی تو بول اٹھا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اس لیے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں ؟ کہ اصحاب کہف اور الرقیم والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے عجب نشانی ہیں۔ جن کا واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چند نوجوان تھے جب توحید کا عقیدہ اپنانے اور اس کی تبلیغ کرنے پر ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ یہ دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہمیں کامیابی کے لیے اسباب عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ یہاں ان کے سونے کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکائے رکھا۔ شدید آندھیاں، موسلادھار بارشیں، پرندوں کی آوازیں اور درندوں کی دھاڑیں غرض کہ کوئی چیز ان کو بیدار نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ آپس میں معلوم کریں کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ہیں۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں اسی وجہ سے قرآن ان جزئیات اور تفصیلات کا ذکر نہیں کرتاجن کا تعلق براہ راست ہدایت کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے یہ نہیں بتلایا کہ وہ کون لوگ تھے اور کس علاقے کے رہنے والے تھے۔ البتہ یہ بات اس واقعہ میں کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ یہ عمر کے لحاظ سے جوان لوگ تھے اور عقیدہ توحید کی بنیاد پر ان کا لوگوں کے ساتھ شدید اختلاف ہوا۔ وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار اور سنگسار کرنے کی کوشش کی وہ اپنا ایمان اور جان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غار میں تین سو نو سال تک سلائے رکھا ایک کتا جو راستے میں ان کے ساتھ مانوس ہو اوہ ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ جب یہ نوجوان دعا کرتے ہوئے غار میں لیٹ گئے تو کتا غار کے دھانے پر بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو بھی تین سو نو سال تک اسی حالت میں وہاں بٹھائے رکھا کبھی کبھار اگر کوئی شخص اس غار کے قریب جاتا تو پہاڑوں کے درمیان عجیب قسم کی غار، اس میں لیٹے اور کروٹیں لیتے ہوئے انسان اور غار کے دہانے پر بیٹھے ہوئے کتے کو دیکھ کر ڈر کے مارے قریب جانے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ اتنی دیر کتا زندہ رہا یا مرنے کے باوجود اس حالت میں بیٹھا رہا۔ بہر حال دیکھنے والا یوں محسوس کرتاکہ اگر اس نے غار کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو کتا اس پر حملہ آور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال سلانے کے بعد اٹھایا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے ہیں ؟ ان جوانوں کو اصحاب کہف اور الرقیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔﴿ الرَّقِیْمُ﴾ کے بارے میں اہل علم کے دو خیال ہیں۔ ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ﴿الرَّقِیْمُ﴾ اس بستی کا نام ہے جہاں کے یہ لوگ رہنے والے تھے دوسرے فریق کا کہنا ہے۔﴿ الرَّقِیْمُ﴾ اس تختی کا نام ہے جو تین سو نو سال کے بعد ایک بادشاہ نے غار کے دھانے پر آویزاں کی تھی۔ مسائل: 1۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے تھے۔ 2۔ اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے غار میں ان کے کانوں پر پردہ ڈال دیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور ہدایت کا طلبگا ررہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے: 1۔ انہوں نے دعا کی اے اللہ! ہمیں رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں آسانی فرما۔ (الکھف :10) 2۔ اے ہمارے پرو ردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں رحمت عطا فرما۔ (آل عمران :8) 3۔ تیر ارب بے پرواہ اور رحمت والا ہے۔ (الانعام :133) 4۔ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ (الاعراف :156) 5۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف :56) 6۔ وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے۔ (العنکبوت :21) 7۔ فرما دیجیے اے میرے رب! معاف فرما اور رحم فرماتو سب سے بہتر رحم کرنے والاہے۔ (المومنون :118) 8۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53)