سورة الإسراء - آیت 40

أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُم بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا ۚ إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر کیا تمھارے رب نے تمھیں بیٹوں کے لیے چن لیا اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ہے ؟ بے شک تم بڑی بات کہہ رہے ہو۔“ (٤٠)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : توحید کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ اس کی ذات میں بھی دوسروں کو شریک سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے ” وحدہ لا شریک“ ہے۔ سورۃ اخلاص میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! لوگوں کو کھول کر بتلادیں کہ وہ اللہ ایک ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ اسے کسی نے جنم دیا ہے اور اس کی کوئی بھی کسی اعتبار سے برابری کرنے والا نہیں۔ سورۃ المائدۃ آیت 75میں فطری اور عقلی دلیل کے ساتھ عیسائیوں کو سمجھایا ہے کہ مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) ایک رسول ہی تھے۔ جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں۔ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ ہم مشرکوں کے لیے کس طرح حقیقت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں پھر بھی بہکے جاتے ہیں۔ سورۃ النحل آیت 57تا 59میں ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کو سمجھایا کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہونے کے ساتھ غم سے بھر جاتا ہے اور وہ لوگوں میں اس بری خبر کی وجہ سے عار محسوس کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے آیا اسے زندہ رہنے دے یا زمین میں دھنسا دے ؟ یہاں سوالیہ انداز میں فرمایا ہے کہ کیا تمھارے رب نے تمہارے لیے بیٹے منتخب کیے ہیں اور اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں منتخب کیا ہے ؟ درحقیقت یہ بہت ہی گناہ کی بات ہے جو تم کہتے ہو۔ سورۃ مریم آیت 88تا 93میں اس جرم کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہ کہتے ہیں : ” الرحمن“ کی اولاد ہے یہ اتنی بری بات کہہ رہے ہیں قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ سرکے بل نیچے گر پڑیں۔ ربِّ رحمٰن کو کسی طرح لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔“ نبی اکرم (ﷺ) نے اس کو اس حد تک گناہ قرار دیا ہے کہ جو شخص یا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَیْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں۔ نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں میری نہ بیوی ہے نہ اولاد۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے۔ 2۔ کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا بدترین گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اولاد سے مبرا اور پاک ہے : 1۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل :40) 2۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ:116) 3۔ انہوں نے کہا ” الرحمن“ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (الانبیاء :26) 4۔ اللہ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون :91) 5۔ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن :3) 6۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بے نیاز ہے۔ (یونس :68)