سورة الإسراء - آیت 37

وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ سکے گا اور نہ اونچائی میں پہاڑوں تک پہنچ پائے گا۔“ (٣٧) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 37 سے 38) ربط کلام : فضولیات میں پڑنے اور برے خیالات سے روکنے کے بعد متکبرانہ چال ڈھال اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔ حقیقتاً یہ بھی فضول حرکت ہے کیونکہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ انسان جب ذہنی طور پر پراگندہ اور قلبی لحاظ سے برا ہوجائے تو وہ اپنے سوا کسی کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ایسے شخص کے دل میں غرور اور تکبرکا پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ بالخصوص جب ایسے شخصکو مال کی فراوانی، اقتدار اور اختیار دیا جائے یا اسے کسی قسم کی برتری حاصل ہوجائے تو وہ فخر و غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص ناصرف اپنی گفتگو میں شیخی بگھار تا ہے۔ بلکہ اس کی چال ڈھال میں غرور اور تکبر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ایسے شخص کو سرزنش کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ زمین پر اکڑ، اکڑکر مت چل کیونکہ اس طرح چلنے سے نہ تو زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی تن کر چلنے سے پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ اے انسان ! یہ کام تیرے رب کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے۔ یہاں ” کل ذلک“ کے الفاظ استعمال فرما کر سابقہ آیات میں کی گئی تمام ممنوعات کا احاطہ کرلیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ دنیا کی رسوائی اور نقصان سے بچنے کے ساتھ آخرت کی ذلت ور سوائی سے مامون ہونے کی کوشش کرے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ () الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا عزت اللہ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ تکبر کیا ہے؟ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِبْرِ وَبَیَانِہِ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل: 1۔ تکبر و غرور اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ فخر و تکبر سے نہ تو کوئی زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پاسکتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کو معصیت کے تمام کام ناپسند ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : 1۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل :37) 2۔ اللہ تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان :18) 3۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر نہ اتراؤ اور اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :23) 4۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء :36)