سورة البقرة - آیت 194

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے میں ہیں اور سب حرمتیں بدلے کی چیزیں ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کرسکتے ہو جیسی تم پر کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت194 سے 195) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ان بارہ ہدایات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کفار حرمتوں کی آڑ میں تم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کریں تو تم بھی کسی حرمت کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف برسر پیکار ہوجاؤ۔ کفار کے مقابلے میں حرمت کے بدلے ہی عزت وحرمت کا خیال رکھاجاسکتا ہے کیونکہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی سے روکنا، کفر کو دین حق پر مسلط کرنا، کمزوروں پر ظلم ڈھانا اور مشرکوں کا بیت اللہ پر قبضہ جمانے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہوسکتا اگر کفار مزاحم ہونے اور لوگوں پر ظلم کرنے سے باز آجائیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار نے اٹھارہ سال تمہارے اوپر ظلم کیے ہیں لیکن یاد رکھنا کسی لمحہ بھی تمہیں زیادتی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے غفور رحیم صفت بیان فرما کر اشارہ دیا ہے کہ اگر تم معاف کردو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس حکم سے واضح ہواکہ اسلام کسی صورت میں بھی کسی پر زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ رسول کریم( ﷺ) غزوات میں ہدایات جاری فرماتے کہ کسی بوڑھے، بچے اور عورت یہاں تک کہ معبد خانوں میں عبادت کرنے والے اور اپنے گھروں کے کواڑ بند کرنے والوں پر زیادتی نہ کی جائے۔ آپ (ﷺ) نے معاہدات میں اس بات کا مکمل خیال اور غیر مسلموں کو پورا پورا تحفظ عنایت فرمایا۔ نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس سے اسلام کی امن وسلامتی اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کھل کر واضح ہوجاتی ہے وہ معاہدہ یہ ہے : ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (ﷺ) کی ضمانت میں ہوں گے، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ ان کو ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (ﷺ) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل نہ ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبرًاکسی بات پر مجبور نہ کیا جائیگا۔“ ان ہدایات کا مسلمانوں نے ہر دور اور ہر حال میں خیال رکھا۔ اسلام میں جہاد کا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے باغیوں کے بجائے صرف اس کے تابع فرماں بندوں کا قبضہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت ملک، قوم اور ملی نظریے سے بغاوت کرنے والوں کو گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا جہاد ذاتی اغراض اور کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں آخری حکم میں فرمایا جارہا ہے کہ جہاد فرض ہونے کی صورت میں اپنے آپ کو بچانا اور مال محفوظ رکھنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ جب دشمن سر پر چڑھ آئے تو نہ مال و منال بچا کرتا ہے اور نہ عزّت وجان سلامت رہتی ہے۔ نازک حالات میں ہر چیز قربان کرنے کے جذبے سے ہی قومیں اپنا وقار اور وجود قائم رکھ سکتی ہیں۔ غزوات نبوی (ﷺ) اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان نقصان کا تقابل : نبی (ﷺ) کے دور میں کل مسلمان شہداء 387 اور مخالف 732 تھے۔ ( رحمۃ للعلمین از قاضی سلیمان منصورپوری) لیکن افسوس غیر مسلموں کی تاریخ میں ان قدروں کا کبھی بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ مہذب دنیا کے راہنماؤں نے اپنے ہم مذہب اور دوسرے ممالک کا پہلی جنگ عظیم 1914 تا 1919 میں اور دوسری جنگ عظیم 1939 تا 1945 میں جو قیامت برپا کی اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تفصیل اس طرح ہے۔ جرمنی کے سب سے زیادہ 18 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سوویت یونین کے 17 لاکھ، فرانس کے 13 لاکھ 85 ہزار، آسٹریلیا کے 12 لاکھ اور برطانیہ کے 9 لاکھ 47 ہزار افراد مارے گئے۔ جاپان کے 8 لاکھ، رومانیہ کے 7 لاکھ 50 ہزار، سربیان کے 7 لاکھ 8 ہزار، اٹلی کے 4 لاکھ 80 ہزار، ترکی 3 لاکھ 25 ہزار، بیلجئیم کے 2 لاکھ 27 ہزار، یونان کے 2 لاکھ 30 ہزار، امریکہ کے 1 لاکھ 37 ہزار، پرتگال کے 1 لاکھ، کینیڈا کے 69 ہزار، بلغاریہ کے 88 ہزار اور مونٹے نیگرو کے 50 ہزار مارے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں سپر پاور بننے کے لیے سوویت یونین کو سب سے بھاری جانی ومالی قیمت چکانا پڑی۔ اس کے 3 کروڑ 55 لاکھ 68 ہزارفوجی اور سویلین ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کے 1 کروڑ 13 لاکھ 24 ہزار مارے گئے، پولینڈ کے 68 لاکھ 50 ہزار، جاپان کے 18 لاکھ 6 ہزار، یوگو سلاویہ کے 17 لاکھ، رومانیہ کے 9 لاکھ 85 ہزار، فرانس 8 لاکھ 10 ہزار، یونان 5 لاکھ 20 ہزار، امریکہ 4 لاکھ 95 ہزار، آسٹریا 4 لاکھ 80 ہزار، اٹلی 4 لاکھ 10 ہزار، برطانیہ 3 لاکھ 88 ہزار، ہالینڈ 2 لاکھ 50 ہزار اور بیلجئیم کے 85 ہزار مارے گئے۔ اس کے علاوہ فن لینڈ کے 79 ہزار، کینیڈا 42 ہزار، ہندوستان 36 ہزار، آسٹریلیا 29 ہزار، البانیہ 28 ہزار، سپین 22 ہزار، بلغاریہ 21 ہزار، نیوزی لینڈ 12 ہزار، ناروے 10 ہزار، جنوبی افریقہ 9 ہزار، لکسمبرگ 5 ہزار اور ڈنمارک کے 4 ہزار مارے گئے جب کہ حالیہ عراق اور افغانستان جنگ میں مرنے والوں کی تعداد 65 ہزارسے اوپر پہنچ چکی ہے۔ ان جنگوں پر اخراجات بھی کم نہیں ہوئے۔ 1990 میں ڈالر کی قیمت کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں 196 ارب 50 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ دوسری عالمگیر جنگ میں 2091 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ تیسری جاری عالمی جنگ میں اب تک 1 کھرب 79 ارب 19 کروڑ 51 لاکھ 11 ہزار ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی (2004) میں امریکہ جو دنیا میں تہذیب وتمدن کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ اس نے عراق کے تاریخی مقامات اور تمام شہروں بالخصوص نجف، بغداد اور فلوجہ میں جس طرح مساجدومدارس اور خواتین کی بے حرمتی کی اور قبرستانوں پر بلڈوزر چلائے ان مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کو پاخانہ کھانے اور اپنا پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا جس پر امریکہ کے حلیف اور دیگر ممالک میں اس کے خلاف کہرام برپا ہوا جس کے رد عمل میں امریکہ کے صدر بش کو دنیا کے سامنے معافی مانگنی پڑی پھر بھی ان کے رویّے میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت اور اس کے دلائل: حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا: جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا بلا شبہ اللہ تعالی صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہےتو اللہ تعالی اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اسکو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کر کے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (رواہ البخاری: باب الصدقۃ من کسب طیب) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی۔معاف کرنے سے اللہ تعالی بندے کو مزید عزت سے نوازتے ہیں اور جو شخص بھی اللہ کی رضا کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس شخص کو لوگوں کی نگاہوں میں معزز فرمادیتے ہیں۔ (رواہ مسلم: باب استحباب العفو والتواضع) مسائل : 1۔ حرمت والے مہینوں اور حرمات میں قصاص ہے۔ 2۔ زیادتی کے بدلے میں اتنی ہی زیادتی کرنا جائز ہے۔ 3۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ 5۔ ہر حال میں نیکی کرنا چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔