سورة ابراھیم - آیت 41

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے اور ایمان والوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔“ (٤١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ برا سلوک کرنے کے باوجود باپ کے لیے بخشش کی دعا کا وعدہ : ” ابراہیم کا تذکرہ کیجیے یقیناً وہ سچا نبی تھا جب انھوں نے اپنے باپ سے کہا ابا جان آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکتے ہیں ابا جان مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا میری فرمانبرداری کیجیے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلاؤں گا۔ ابا جان شیطان کی پرستش نہ کیجیے یقیناً شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ ابا جان مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب آپکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں۔ اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے مجھے برگشتہ کرتا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ ابراہیم نے کہا آپ پر سلامتی ہو میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا یقیناً وہ مجھ پر مہربان ہے۔“ (مریم : 41 تا47) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی : باپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دے کر گھر سے نکال باہر کیا کہ میری آنکھوں سے دور ہوجا ورنہ میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ اس کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کی ضرور دعا کروں گا۔ (مریم : 46تا48) جس کے نتیجہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) محشر کے دن اپنے رب کے حضور فریاد کریں گے لیکن ان کی فریاد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے اس بات کی یوں بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اے امت مسلمہ کے لوگو! تمھارے لیے ابراہیم کا ہر عمل نمونہ ہے سوائے اس کے جو انھوں نے اپنے باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا۔ (الممتحنۃ:4) ماں باپ اور نیک لوگوں کے لیے دعا کرنے کا حکم : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں اس لیے قبول نہ ہوگی کہ وہ مشرک تھا۔ قرآن مجید نے مشرک کے حق میں بخشش کی دعا کرنے سے منع کیا ہے۔ البتہ مواحد والدین اور مواحد فوت شدگان کے لیے بخشش کی دعا کرنا انبیاء کی سنت، نیک لوگوں کا طریقہ اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے والدین اور فوت شدگان کے لیے دعا : ” اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان دار میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور ظالموں کی تباہی میں مزید اضافہ فرما۔“ [ نوح :28] نبی اکرم (ﷺ) کی فوت شدگان کے لیے دعا : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗٓ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ الاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْ لَہٗ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہٖ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول محترم (ﷺ) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا آدمی کے فوت ہونے سے اس کے عمل کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ان تین چیزوں کے علاوہ (1) صدقہ جاریہ۔ (2) ایساعلم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بالإِْیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا رَبَّنَآ إِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [ الحشر :10] ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دل میں کینہ ایمان داروں کے متعلق پیدا نہ فرما اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ مسائل: 1۔ پروردگار سے اپنے لیے بخشش کی دعا مانگنی چاہے۔ 2۔ والدین اور مومنین کے لیے بھی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : موحّدفوت شدگان کے لیے مغفرت کی دعا : 1۔ اے ہمارے پروردگار مجھے، میرے والدین اور مومنوں کو بخش دے۔ (ابراہیم :41) 2۔ نوح نے کہا اے میرے پروردگار مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور مومن مردوں اور عورتوں کو (نوح :28) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخشے دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے۔ (الحشر :10) 4۔ ابراہیم نے کہا میرے باپ کی مغفرت فرما یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا۔ (الشعراء :86)