سورة ھود - آیت 84

وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ، تول میں کمی نہ کرو۔ بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور بے شک میں تم پر ایک گھیر لینے والے عذاب سے ڈرتا ہوں۔“ (٨٤) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 84 سے 86) ربط کلام : قوم لوط کے انجام کے بعد قوم صالح کے کردار اور انجام کا ذکر۔ قوم مدین کی طرف انہیں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر منتخب کیا گیا اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت ان سے پہلے انبیاء دیتے آرہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا الٰہ نہیں۔ قرآن مجید میں الٰہ کے کئی معانی ہیں۔ جن میں سب سے پہلا معنی ہے کہ وہ ہستی جس کی والہانہ طور پر بندگی کی جائے۔ انتہائی مشکل کے وقت صرف اس کو پکارا جائے اور اس کے سوا کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم نہ کیا جائے۔ ( سورۃ النحل : 2تا65) کیونکہ یہ صفات صرف ایک اللہ کی ذات میں ہیں اور کسی نبی، ولی، فرشتہ اور دیگر مخلوق میں نہیں ہیں۔ جس بناء پر ہر انسان کو اللہ کی ذات اور صفات پر مکمل ایمان لاکرصرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ عبادت کا معنی ہے کہ انسان اپنے آپ کو صرف اور صرف ایک اللہ کی غلامی کے لیے وقف کردے۔ یہی کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ کا مفہوم اور تقاضا ہے۔ محمد رسول اللہ کا معنی ہے جو بات حضرت محمد (ﷺ) نے بتلائی اور کرکے دکھائی ہے ہر کام اس کے مطابق کیا جائے چنانچہ شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو فرماتے ہیں اے قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کی بندگی کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کی اطاعت وپرستش کی جائے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو میں دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مال دار ہو۔ یہاں خیر سے مراد دنیا کا مال و متاع ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر تم کفرو شرک اور ماپ تول میں کمی وبیشی کرنے سے باز نہ آئے تو تم پر ایسا عذاب آئے گا جو تمہیں چاروں طرف سے گھیرلے گا۔ اس سے بچ نکلنا تمہارے بس کی بات نہ ہوگی۔ اے میری قوم ناپ تول میں خیانت کرنے کی بجائے اس کو عدل و انصاف کے ساتھ ناپا اور تولا کرو اور دوسروں کی چیزوں میں کسی طریقہ سے کمی و بیشی نہ کرو۔ یہ سراسر فساد کا راستہ ہے۔ تمہیں ملک میں فساد کرنے سے بچنا چاہیے۔ اللہ نے جو تمہیں خیر و برکت عطا کر رکھی ہے وہ تمہارے لیے کافی ہے اگر تم اس پر ایمان رکھنے والے ہو۔ میں تو تمہیں بار بار نصیحت ہی کرسکتا ہوں۔ کیونکہ میں تم پر نگران نہیں بنایا گیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے پہلے خطاب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں : 1۔ صرف ایک اللہ کی بندگی کرو اور اس کی بندگی میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ 2۔ لوگوں کا مال کم ناپنے اور تھوڑا تولنے کی بجائے اسے عدل وانصاف کے ساتھ ناپا اور تولاکرو۔ اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول کرنے کے بعد جو تمہارا حق بنتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ جہاں تک ماپ تول کا معاملہ ہے کہ کسی کو چیز دیتے ہوئے مقرر شدہ وزن سے کم دینا اور اس سے لیتے ہوئے مقررہ شرائط سے زیادہ لینا یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس زیادتی سے آپس میں شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ہر فساد کی ابتدا نفرت سے ہی ہوا کرتی ہے۔ جس سے منع کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تین طریقوں سے سمجھایا۔ 1۔ اے میری قوم کے لوگو! تم مال دار ہو، اس لیے تمہیں خیانت نہیں کرنا چاہیے۔ اس فرمان کا مقصد یہ تھا کہ ایک غریب آدمی کسی وجہ سے خیانت کرے تو اس کے پاس ایک بہانہ ہوتا ہے گو ایسا بہانہ جائز نہیں لیکن تم کس بنیاد پر اس خیانت کے مرتکب ہو رہے ہو؟ تم تو مالدار ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم سرمایہ دار ہونے کے باوجود خائن تھی۔ 2۔ حلال اور جائز طریقے سے کمایا اور بچایا ہوا مال انسان کے لیے بہتر ہے یعنی بابرکت ہوا کرتا ہے۔ 3۔ مجھے اللہ نے تمہیں سمجھانے کے لیے بھیجا ہے، تم پر نگران مقرر نہیں کیا۔ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) [ السلسلۃ الصحیحۃ:107] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ ﴿وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ۔ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ﴾[ المطففین : 1۔3] ” ہلاکت ہے کم تولنے والوں کے لیے کہ وہ جب لوگوں سے تول کرلیتے ہیں تو زیادہ لیتے ہیں اور جب ان کے لیے تولتے ہیں یا وزن کرتے ہیں تو کمی کرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ مدین والوں کی طرف شعیب (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ 2۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جھوٹے معبودوں کی نفی کی۔ 3۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ 4۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ 5۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ 6۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو زمین میں فساد کرنے سے روکا۔ 7۔ ماپ تول میں کمی کرنا ملک میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن : نبی نگران نہیں مبلغ ہوتا ہے : 1۔ میں تم پر نگراں نہیں ہوں۔ (ھود :86) 2۔ آپ (ﷺ) ان کے لیے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ (النساء :80) 3۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کے لیے نگران نہیں بنایا۔ (الانعام :107) 4۔ اگر وہ اعراض کریں تو آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (الشوریٰ:48) 5۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل :35) 6۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد :40)