سورة الانعام - آیت 136

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور انہوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں، پھر انہوں نے اپنے خیال کے مطابق کہا کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے جو ان کے شرکاء کا حصہ ہے وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔“ (١٣٦)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 بعثت وجزا کے متعلق ان کے خیلات کی تردید کے اب یہاں سے ان کی دوسری اعتقاد اوعملی حماقتوں اور جہالتوں کا بیان ہورہا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل عرب کے جاہلا نہ نظریات کو جاننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ سورۃ انعام کی 130 آیتوں کے بعد دے ایات قد خسر الذین قتلو او لا دھم سفھا بغیر علم۔۔۔۔ الا یہ تک تلاوت کرے ابن العربی فرماتے ہیں کہ ابن عباس نے بالکل صحیح کیا ہے کہ اللہ تعلای کے مقابلے میں بتوں کی ترجیح دینے سے بڑی جہالت اور کون سی ہو سکتی ہے (کبیر، قرطبی) مطلب یہ ہے کہ کھیتی اور مو یشیوں میں سے کچھ حصہ صلہ رحمی اور مسافروں کی مہمان کے لیے مخصوص کرلیتے۔