سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ فرما دیجئے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سکھلائے ہیں جنہیں تم سکھلاتے ہو، جیسے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ، جو وہ تمہارے لیے روک رکھیں۔ اور اس پر اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔“ (٤)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگون نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھر چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت ﷺ جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر چیتا باز یا چیل اور اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کو 3 وغیرہ اور جسئے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑے کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کا شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے سدھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو پانے مالک کے لیے پکڑے اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنی مما امسکن کے ہیں حضرت عدی (رض) نبی ﷺ یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا و ورنہ مت کھا و اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھا و کیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری )