سورة النسآء - آیت 6

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور یتیموں کو بالغ ہونے تک آزماتے رہو پھر اگر تم ان میں سمجھ داری پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہوجانے کے خوف سے ان کے مال کو جلدی جلدی اسراف کے ساتھ نہ کھاؤ۔ مالدار کو چاہیے کہ وہ بچا رہے اور جو کوئی محتاج ہو وہ مناسب طریقے سے کھائے۔ پھر جب مال ان کے سپرد کرو تو اس پر گواہ بنالو اور اللہ تعالیٰ حساب لینے والا کافی ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہئے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہو سکتے ف 6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آۓ۔