سورة فصلت - آیت 47

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، جو اپنے شگوفوں سے نکلنے والے پھل اس کے علم میں ہیں، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے، پھر جس دن وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک۔ یہ کہیں گے ہم عرض کرچکے ہیں آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی قیامت کب آئے گی ؟ اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کسی مخلوق کو اس کا علم نہیں ہے۔ روایات میں ہے کہ مشرکین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ” اگر تم محمدﷺ دعوائے نبوت میں سچے ہو تو بتائو قیامت کب آئے گی۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) مشہور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا نیز دیکھئے اعراف آیت 187 (ابن کثیر) ف 2 مطلب یہ ہے کہ صرف قیامت کا علم ہی نہیں غیب کے متعلق جتنے بھی امور ہیں، ان سب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ولی کو صرف اسی حد تک امور غیبیہ کا علم ہوسکتا ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی ہوتی ہے۔ ( مزید دیکھئے انعام 59 رعد 8) ف 3 کہ تیرا کوئی شریک ہے یا ہوسکتا ہے کیونکہ اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم جو دوسروں کو دنیا میں تیرا شریک گردانتے رہے وہ سب غلط تھا۔ یہ بات مشرکین اس وقت کہیں گے جب ایک طرف تو عذاب دیکھیں گے اور دوسری طرف انہیں نظر آئے گا کہ ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہا۔